بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نمازِ جنازہ اداکرنے اور جنازہ اٹھانے کا مسنون طریقہ


سوال

نمازِ  جنازہ ادا کرنے  اور جنازہ کو اٹھانے کا کیا کوئی مسنون طریقہ ہے؟

جواب

1۔ نمازِ  جنازہ ادا کرنے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ میت کو آگے رکھ کر امام اس کے سینے کی سیدھ میں کھڑا ہوجائے، اور جنازہ ادا کرنے والے تمام افراد امام کے پیچھے صف بند ہوجائیں اور اللہ کی رضا کی خاطر اور میت کے لیے دعا کرنے کی غرض سے نمازِ جنازہ کی نیت کریں، جیساکہ البحر الرائق میں ہے:’’ و للجنازة ينوي الصلاة لله و الدعاء للميت‘‘. ( ١ / ٣٨٣) پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے دونوں ہاتھ ناف کے نیچے باندھ کر ثنا پڑھیں: ’’سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، تَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ، وَ جَلَّ ثَنَاؤُكَ وَلاَ إِلهَ غَيْرُكَ‘‘. ( حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح، كتاب الصلاة، باب أحكام الجنائز، ص: ٥٨٣ - ٥٨٤) پھر دوسری تکبیر کانوں تک ہاتھ اٹھائے بغیر کہہ  کر درود ابراہیمی پڑھے ( الطحطاوي علی المراقي، ص: ٥٨٥) پھر کانوں تک ہاتھ اٹھائے بغیر تیسری تکبیر کہہ  کر میت کی مغفرت کے لیے دعا کریں، اس حوالے سے احادیث میں متعدد ادعیہ پڑھنا رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، پس ان میں سے جو بھی دعا یاد ہو وہ پڑھیں، ( فتح القدير، كتاب الصلاة، باب الجنائز، فصل في الصلاة علی الميت، ٢/ ٨٥، ط: رشيدية)

کچھ دعائیں درج ذیل ہیں:

میت اگر بالغ ہو، تو درج ذیل دعا پڑھے:

"اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ وَعَافِهِ وَاعْفُ عَنْهُ ، وَأَكْرِمْ نُزُلَهُ ، وَوَسِّعْ مُدْخَلَهُ ، وَاغْسِلْهُ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ ، وَنَقِّهِ مِنْ الْخَطَايَا كَمَا نَقَّيْتَ الثَّوْبَ الْأَبْيَضَ مِنْ الدَّنَسِ ، وَأَبْدِلْهُ دَارًا خَيْرًا مِنْ دَارِهِ ، وَأَهْلًا خَيْرًا مِنْ أَهْلِهِ ، وَزَوْجًا خَيْرًا مِنْ زَوْجِهِ ، وَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ ، وَقِهِ فِتْنَةَ الْقَبْرِ وَعَذَابَ النَّارِ". (رواه مسلم، رقم: 963)

"اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا وَصَغِيرِنَا وَكَبِيرِنَا وَذَكَرِنَا وَأُنْثَانَا وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا ، اللَّهُمَّ مَنْ أَحْيَيْتَهُ مِنَّا فَأَحْيِهِ عَلَى الْإِيمَانِ ، وَمَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوَفَّهُ عَلَى الْإِسْلَامِ ، اللَّهُمَّ لَاتَحْرِمْنَا أَجْرَهُ ، وَلَاتُضِلَّنَا بَعْدَهُ". (رواه أبو داود، رقم:3201)

اور اگر میت نا بالغ بچے کی ہو تو درج ذیل دعا پڑھیں:

" اللهم اجْعَلْهُ لَنَا فَرَطاً، وَاجْعَلْهُ لَنَا أجْراً وَ ذُخْراً، اللهم اجْعَلْهُ لَنَا شَافِعاً وَ مُشَفَّعاً". ( هندية، ١ / ١٦٤)

اور اگر میت نابالغہ بچی کی ہو تو درج ذیل دعا پڑھیں:

" اللهم اجْعَلْهَا لَنَا فَرَطاً، وَاجْعَلْهَا لَنَا أجْراً وَ ذُخْراً، اللهم اجْعَلْهَا لَنَا شَافِعةً وَ مُشَفَّعةً". ( الطحطاوي علي المراقي، ص: ٥٨٦)

پھر چوتھی تکبیر کانوں تک ہاتھ اٹھائے بغیر کہنے کے بعد السلام علیكم و رحمة اللهکہتے ہوئے دائیں اور بائیں سلام پھیر دیں، اور دونوں ہاتھوں کو چھوڑدیں، ( شامی ٢ / ٢١٣)

2۔ اگر چھوٹے بچے/ بچی کی میت ہو تو ایک آدمی اپنے ہاتھوں میں اٹھالے کافی ہے، البتہ اگر بالغ کی میت ہو تو اس کو چار پائی پر رکھ کر چار آدمی اٹھائیں، پھر اس اٹھانے میں ایک تو نفسِ سنت ہے اور ایک کمالِ سنت ہے: نفسِ سنت تو یہ ہے کہ بلا ترتیب چار پائی کے چاروں پاؤں پکڑ کر دس دس قدم چلے، اور کمالِ سنت یہ ہے کہ پہلے میت کے سرہانے کی دائیں جانب کو اپنے دائیں کاندھے پر رکھ کر دس قدم چلے، پھر پائینتی کے دائیں جانب کو دائیں کاندھے پر رکھ کر دس قدم چلے، پھر سرہانے کی بائیں جانب کو بائیں کاندھے پر رکھ کر دس قدم چلے، پھر پائینتی کی بائیں جانب کو بائیں کاندھے پر رکھ کر دس قدم چلے۔  نیز جنازہ لے جاتے وقت میت کا سر آگے رکھیں اور جنازہ کو ذرا تیز قدم کے ساتھ لے کر چلیں، تاہم دوڑیں نہیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"سُنَّ فِي حَمْلِ الْجِنَازَةِ أَرْبَعَةٌ مِنْ الرِّجَالِ، كَذَا فِي شَرْحِ النُّقَايَةِ لِلشَّيْخِ أَبِي الْمَكَارِمِ إذَا حَمَلُوهُ عَلَى سَرِيرٍ أَخَذُوهُ بِقَوَائِمِهِ الْأَرْبَعِ، بِهِ وَرَدَتْ السُّنَّةُ، كَذَا فِي الْجَوْهَرَةِ النَّيِّرَةِ. ثُمَّ إنَّ فِي حَمْلِ الْجِنَازَةِ شَيْئَيْنِ نَفْسَ السُّنَّةِ وَكَمَالَهَا أَمَّا نَفْسُ السُّنَّةِ أَنْ تَأْخُذَ بِقَوَائِمِهَا الْأَرْبَعِ عَلَى طَرِيقِ التَّعَاقُبِ بِأَنْ تَحْمِلَ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ عَشْرَ خُطُوَاتٍ وَهَذَا يَتَحَقَّقُ فِي حَقِّ الْجَمْعِ وَأَمَّا كَمَالُ السُّنَّةِ فَلَا يَتَحَقَّقُ إلَّا فِي وَاحِدٍ وَهُوَ أَنْ يَبْدَأَ الْحَامِلُ بِحَمْلِ يَمِينِ مُقَدَّمِ الْجِنَازَةِ، كَذَا فِي التَّتَارْخَانِيَّة. فَيَحْمِلُهُ عَلَى عَاتِقِهِ الْأَيْمَنِ ثُمَّ الْمُؤَخَّرُ الْأَيْمَنُ عَلَى عَاتِقِهِ الْأَيْمَنِ ثُمَّ الْمُقَدَّمُ الْأَيْسَرُ عَلَى عَاتِقِهِ الْأَيْسَرِ ثُمَّ الْمُؤَخَّرُ الْأَيْسَرُ عَلَى عَاتِقِهِ الْأَيْسَرِ هَكَذَا فِي التَّبْيِينِ. وَيُكْرَهُ حَمْلُهَا بَيْنَ الْعَمُودَيْنِ بِأَنْ يَحْمِلَهَا رَجُلَانِ أَحَدُهُمَا مُقَدَّمُهَا وَالْآخَرُ مُؤَخَّرُهَا إلَّا عِنْدَ الضَّرُورَةِ مِثْلُ ضِيقِ الْمَكَانِ وَمَا أَشْبَهَ ذَلِكَ وَلَا بَأْسَ بِأَنْ يَأْخُذَ السَّرِيرَ بِيَدِهِ أَوْ يَضَعَ عَلَى الْمَنْكِبِ وَيُكْرَهُ لَهُ أَنْ يَضَعَ نِصْفَهُ عَلَى الْمَنْكِبِ وَنِصْفَهُ عَلَى أَصْلِ الْعُنُقِ، هَكَذَا فِي شَرْحِ الطَّحَاوِيِّ. وَذَكَرَ الْإِسْبِيجَابِيُّ أَنَّ الصَّبِيَّ الرَّضِيعَ أَوْ الْفَطِيمَ أَوْ فَوْقَ ذَلِكَ قَلِيلًا إذَا مَاتَ فَلَا بَأْسَ بِأَنْ يَحْمِلَهُ رَجُلٌ وَاحِدٌ عَلَى يَدَيْهِ وَيَتَدَاوَلَهُ النَّاسُ بِالْحَمْلِ عَلَى أَيْدِيهِمْ وَلَا بَأْسَ بِأَنْ يَحْمِلَهُ عَلَى يَدَيْهِ وَهُوَ رَاكِبٌ وَإِنْ كَانَ كَبِيرًا يُحْمَلُ عَلَى الْجِنَازَةِ، كَذَا فِي الْبَحْرِ الرَّائِقِ. وَيُسْرَعُ بِالْمَيِّتِ وَقْتَ الْمَشْيِ بِلَا خَبَبٍ وَحَدُّهُ أَنْ يُسْرَعَ بِهِ بِحَيْثُ لَا يَضْطَرِبُ الْمَيِّتُ عَلَى الْجِنَازَةِ، كَذَا فِي التَّبْيِينِ".(كتاب الصلاة، الباب الحادي و العشرون في الجنائز، الْفَصْلُ الرَّابِعُ فِي حَمْلِ الْجِنَازَةِ، ١ / ١٦٢)  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200331

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں