بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نقدی نہ ہونے کی صورت میں صاحب نصاب شخص قربانی کیسے کرے


سوال

 اگر کسی کے پاس دو گاڑی ہوں وہ اس پر مزدوری کرتا ہو ،  دونوں گاڑیوں کی قیمت تیس لاکھ ہو لیکن قربانی کے ایام میں اس کے پاس اتنے روپے نہیں ہوتے کہ وہ قربانی کر سکے تو کیا اس شخص پر قربانی واجب ہے؟

جواب

قربانی ہر اس مسلمان عاقل بالغ مقیم پر واجب ہوتی ہے جس کی ملکیت میں قربانی کے ایام میں ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی، یا اس کی قیمت کے برابر رقم ہو،  یا تجارت کا سامان، یا ضرورت سےزائد اتنا سامان  موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو،اوریہ مال اس کی حاجات اصلیہ سے زائد موجود ہوخواہ  ضرورت سے زائد گھریلو سامان ہو یا رہائشی مکان سے زائد کوئی مکان، پلاٹ ، ہو یا زائد سواری وغیرہ کی شکل میں ہو۔

قربانی  واجب ہونے کے لیے نصاب کے مال ، رقم یا ضرورت سے  زائد سامان پر سال گزرنا شرط نہیں ہے، اور تجارتی ہونا بھی شرط نہیں ہے، ذی الحجہ کی بارہویں تاریخ کے سورج غروب ہونے سے پہلے  اگر نصاب کا مالک ہوجائے تو ایسے شخص پر قربانی  واجب ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص پر تیس لاکھ کی دو گاڑیوں کی موجودگی میں قربانی واجب  ہوگی، نقدی نہ ہونے کی صورت میں واجب کی ادائیگی کے لئے  کسی سے قرضہ لے کر قربانی کرنا لازم ہوگا، اور قربانی نہ کرنے اور ایام نحر گزر جانے  کی صورت میں کم از کم ایک حصہ کی رقم صدقہ کرنا ضروری ہوگا۔

کذافی الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 312)

'' وشرائطها: الإسلام والإقامة واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر)،

(قوله: واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضاً يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية، ولو له عقار يستغله فقيل: تلزم لو قيمته نصاباً، وقيل: لو يدخل منه قوت سنة تلزم، وقيل: قوت شهر، فمتى فضل نصاب تلزمه. ولو العقار وقفاً، فإن وجب له في أيامها نصاب تلزم''۔  

فتاوی ہندیہ میں ہے:

وَفِي الْأَجْنَاسِ رَجُلٌ بِهِ زَمَانَةٌ اشْتَرَى حِمَارًا يَرْكَبُهُ وَيَسْعَى فِي حَوَائِجِهِ وَقِيمَتُهُ مِائَتَا دِرْهَمٍ فَلَا أُضْحِيَّةَ، وَلَوْ كَانَ لَهُ دَارٌ فِيهَا بَيْتَانِ شَتْوِيٌّ وَصَيْفِيٌّ وَفَرْشٌ شَتْوِيٌّ وَصَيْفِيٌّ لَمْ يَكُنْ بِهَا غَنِيًّا، فَإِنْ كَانَ لَهُ فِيهَا ثَلَاثَةُ بُيُوتٍ وَقِيمَةُ الثَّالِثِ مِائَتَا دِرْهَمٍ فَعَلَيْهِ الْأُضْحِيَّةُ وَكَذَا فِي الْفَرْشِ الثَّالِثِ، وَالْغَازِي بِفَرَسَيْنِ لَا يَكُونُ غَنِيًّا وَبِالثَّالِثِ يَكُونُ غَنِيًّا، وَلَا يَصِيرُ الْغَازِي بِالْأَسْلِحَةِ غَنِيًّا إلَّا أَنْ يَكُونَ لَهُ مِنْ كُلِّ سِلَاحٍ اثْنَانِ أَحَدُهُمَا يُسَاوِي مِائَتَيْ دِرْهَمٍ، وَفِي الْفَتَاوَى الدِّهْقَانُ لَيْسَ بِغَنِيٍّ بِفَرَسٍ وَاحِدٍ وَبِحِمَارٍ وَاحِدٍ، فَإِنْ كَانَ لَهُ فَرَسَانِ أَوْ حِمَارَانِ أَحَدُهُمَا يُسَاوِي مِائَتَيْنِ فَهُوَ نِصَابٌ، وَالزَّارِعُ بِثَوْرَيْنِ وَآلَةِ الْفَدَّانِ لَيْسَ بِغَنِيٍّ، وَبِبَقَرَةٍ وَاحِدَةٍ غَنِيٌّ، وَبِثَلَاثَةِ ثِيرَانٍ إذَا سَاوَى أَحَدُهَا مِائَتَيْ دِرْهَمٍ صَاحِبُ نِصَابٍ ( كِتَابُ الْأُضْحِيَّةِ، الْبَاب الْأَوَّل فِي تَفْسِير الْأُضْحِيَّة وَرُكْنِهَا وَصِفَتِهَا وَشَرَائِطِهَا وَحُكْمِهَا، ٥ / ٢٩٣، ط: دار الفكر)۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200929

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں