بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نقد سودے کے مقابلے میں ادھار سودے میں زیادہ قیمت رکھنا


سوال

کسی چیز کو ادھار پر بیچتے ہوئے اس کی قیمت نقد کے مقابلے میں زیادہ لگانا، کیا یہ جائز ہے یا نہیں؟

جواب

اگر کوئی چیز ادھار بیچی یا خریدی جائے تو  نقد کے مقابلہ میں ادھار پر خریدنے کی وجہ سے اس چیز کی قیمت میں اضافہ کرنا درست اور جائز ہے، بشرطیکہ چند شرائط کی رعایت رکھی جائے:

  • معاملہ متعین ہو کہ نقد میں چیز خریدی جا رہی ہے یا ادھار یعنی قسطوں پر خریدی جارہی ہے۔

  • قسط کی رقم متعین ہو۔

  • مدت متعین ہو۔

  • کسی قسط کی ادائیگی میں تاخیر ہونے کی بنا پر اضافہ (جرمانہ) کی شرط نہ ہو۔

        مذکورہ بالا شرائط کے تحت ادھار (قسطوں)  پر اشیاء کی خرید و فروخت درست اور جائز ہے۔

"وإذا عقد العقد على أنه إلى أجل كذا بكذا وبالنقد بكذا، أو قال: إلى شهر بكذا أو إلى شهرين بكذا فهو فاسد؛ لأنه لم يعاطه على ثمن معلوم؛ ولنهي النبي صلى الله عليه وسلم عن شرطين في بيع، وهذا هو تفسير الشرطين في بيع، ومطلق النهي يوجب الفساد في العقود الشرعية، وهذا إذا افترقا على هذا، فإن كان يتراضيان بينهما ولم يتفرقا حتى قاطعه على ثمن معلوم، وأتما العقد عليه فهو جائز؛ لأنهما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد". (الكتاب: المبسوط، المؤلف: محمد بن أحمد بن أبي سهل شمس الأئمة السرخسي (المتوفى: 483هـ)، الناشر: دار المعرفة – بيروت، كتاب البيوع، باب البيوع الفاسدة، ۱۳/۷) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200494

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں