بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نفلی روزہ توڑنا


سوال

اگر رمضان المبارک کے علاوہ نفلی روزہ رکھا ہو اور وہ بھی سحری صرف پانی سے ہو، شدتِ بھوک کی وجہ سے روزہ توڑا جائے عمدًا اور قصداً تو کیا حکم ہے؟

جواب

بلاعذر  نفلی  روزہ توڑنا درست نہیں ہے، نیک اعمال شروع کرنے کے بعد انہیں باطل کرنے سے قرآنِ پاک میں منع کیا گیا ہے۔ البتہ اگر روزہ پورا کرنا بھوک کی شدت کی وجہ سے مشکل ہو جائے یا اس کے علاوہ کوئی معتبر و معقول عذر ہو تو  نفلی روزہ توڑا جاسکتا ہے، اس کی جگہ دوسرا روزہ رکھنا ضروری ہوگا، واضح رہے کہ نفلی روزہ توڑنے کی صورت میں کفارہ واجب نہیں ہوتا، خواہ عذر کی وجہ سے توڑے یا بلاعذر، البتہ بلاعذر توڑنا درست نہیں ہے۔

 ” عن عائشة  قالت : ” كنت أنا وحفصة  صائمتین  متطوعتین ، فأھدي لنا طعام ، فأفطرنا، فقال رسول الله ﷺ صوما مکانه  یومًا آخر‘‘. رواہ ابن حبان  فی صحیحه‘‘. (إعلاء السنن  :9/140)

“وعن أبي ھریرة رضي الله عنه قال:  قال رسول الله  ﷺ : ”إذا دعي أحدكم،  فلیجب ، فإن  كان صائمًا  فلیصل  و إن كان مفطرًا، فلیطعم‘‘.  رواہ مسلم‘‘.(إعلاء : 1/143)

وفي الھداية:” والضیافة  عذر‘‘.  (1/271) فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144110201433

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں