بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نفاس کی حالت میں غسل کرنا اور غیر ضروری بال صاف کرنا


سوال

جب بچے کی پیدائش ہو تو کہتے ہیں 40 دن غسل کرنا نہیں چاہیے، یہ کہاں تک درست بات ہے؟ اور اس 40 دن میں غیر ضروری بال صاف کر سکتے ہیں یا نہیں؟

جواب

بچہ پیدا ہونے کے بعد عورت کے رحم سے جو خون آتا ہے اس کو ’’نفاس‘‘ کہتے ہیں،  نفاس کی حالت میں  عورت کے لیے نماز ، روزہ، اور قرآن کریم کی تلاوت کرنا یا چھونا جائز  نہیں ہوتا، البتہ پاک ہونے کے بعد  فرض روزوں کی قضا لازم ہوگی، اور ان ایام کی نمازیں عورت کے لیے بالکل  معاف ہیں  اور ان کی قضا بھی لازم نہیں ہوگی۔

نفاس کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن ہے، اور کم سے کم مدت  کی کوئی حد نہیں،  اگر کسی کو ایک آدھ گھڑی خون آکر بند ہو جائے تو وہ بھی نفاس ہے، لہذا اگر کسی عورت کو بچہ کی ولادت کے بعد چالیس دن کے اندر اندر خون آئے تو وہ نفاس کا ہے،  اور چالیس دن کے اندر اندر خون آنا بند ہوجائے تو وہ پاک سمجھی جائے گی، چالیس دن یا سوا مہینہ  تک ناپاک نہیں شمار ہوگی ۔ اور چالیس دن سے بڑھ جائے تو اگر اس کا پہلا بچہ ہے تو چالیس دن نفاس کا خون ہوگا، اور اس کے بعد آنے والا خون بیماری کا کہلائے گا، اس میں نماز وغیرہ پڑھنی ہوں گی، اور اگر اس کا پہلے سے کوئی بچہ ہے تو اس کی جتنے دن خون آنے عادت ہے وہ نفاس کا شمار ہوگا اور باقی بیماری کا خون شمار ہوگا۔

البتہ اس نفاس کے ایام میں خواہ وہ چالیس دن ہوں یا اس سے کم ہوں  عورت کے لیے غسل کرنا شرعاً  منع نہیں ہے، بلکہ وہ ٹھنڈک وغیرہ کے لیے غسل کرسکتی ہے،ہاں اگر طبی طور پر نقصان دہ ہو تو  معالج کے مشورہ پر عمل کرنا چاہیے،  اور ان ناپاکی کے ایام میں اگر غیر ضروری بالوں کو چالیس دن ہوگئے ہوں تو ان کا کاٹنا ضروری ہوگا، اور اگر چالیس دن سے کم ہوں تو ناپاکی کی حالت میں نہ کاٹنا بہتر ہے، تاہم اگر کاٹ لے تو  بھی کوئی گناہ نہیں ہوگا۔

الفتاوى الهندية (1/ 37):
" أقل النفاس ما يوجد ولو ساعةً، وعليه الفتوى، وأكثره أربعون، كذا في السراجية. وإن زاد الدم على الأربعين فالأربعون في المبتدأة والمعروفة في المعتادة نفاس، هكذا في المحيط".

طحطاوی علیٰ مراقی الفلاح (2/143) باب الجمعه، تکمیل، ط: غوثیه):

"(ویکره (قص الأظفار) وفي حالة الجنابة، وکذا إزالة الشعر؛ لماروی خالد مرفوعاً: «من تنور قبل أن یغتسل جاءته کل شعرة فتقول: یا رب! سله لم ضیعني ولم یغسلني». کذا في شرح شرعة الإسلام عن مجمع الفتاوی وغیره".

 مغني المحتاج إلى معرفة معاني ألفاظ المنهاج (1/ 222) :

"فَائِدَةٌ: قَالَ فِي الْإِحْيَاءِ: لَا يَنْبَغِي أَنْ يُقَلِّمَ أَوْ يَحْلِقَ أَوْ يَسْتَحِدَّ أَوْ يُخْرِجَ دَمًا أَوْ يُبِينَ مِنْ نَفْسِهِ جُزْءًا وَهُوَ جُنُبٌ، إذْ يُرَدُّ إلَيْهِ سَائِرُ أَجْزَائِهِ فِي الْآخِرَةِ فَيَعُودُ جُنُبًا، وَيُقَالُ: إنَّ كُلَّ شَعْرَةٍ تُطَالِبُ بِجَنَابَتِهَا". فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144003200072

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں