بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نفاس سے پاک ہونے کے بعد غسل کا طریقہ


سوال

نفاس کی حالت سے فارغ ہونے کے بعد عورت کو غسل کرنے کے لیے کن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ سات مسواک کی ضرورت ہوتی ہے، کیا یہ صحیح ہے؟

جواب

نفاس سے پاک ہونے کے بعد غسل کا وہی طریقہ جو ناپاکی سے پاک ہونے کے لیے غسل کا طریقہ  ہے،  اس کے علاوہ  سات مسواک کرنا یا اس جیسی دیگر باتیں شرعاً ثابت نہیں ہیں۔

اور غسل جنابت (ناپاکی) کے فرائض یہ ہے:

1:ایک بار اچھی طرح کلی کرنا ۔
2:ایک بار اچھی طرح ناک میں پانی ڈالنا کہ نرم حصے تک پانی پہنچ جائے۔ 
3:ایک بار پورے جسم پر اچھی طرح پانی بہانا کہ ذرہ برابر بھی کوئی جگہ خشک نہ رہے۔

اگر یہ تین اعمال کرلیے تو آپ کا واجب غسل ادا ہوجائے گا۔

اور  غسل کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ غسل کرتے وقت سب سے پہلے دل میں نیت کرے کہ میں اللہ تعالی کی رضا کے لیے غسل کرتی ہوں، یا یوں نیت کرے کہ میں پاک ہوکر عبادت کرنے کے لیے غسل کرتی ہوں، پھر دونوں ہاتھ کلائیوں تک تین بار دھوئے، پھر چھوٹا بڑا استنجا کرے یعنی چھوٹی بڑی دونوں شرم گاہ کو دھوئےاگرچہ ان پر کوئی نجاست نہیں لگی ہو، اور اگر نجاست لگی ہو تو اس نجاست کو بھی دھوئے، پھر اگر جسم پر کہیں اور کوئی نجاست جیسے منی یا خون وغیرہ لگا ہو تو اس کو پاک کردے، پھر مکمل وضو کرے، وضو اسی طریقے پر کرے جس طرح نماز کے لیے کیا جاتا ہے اور اس میں وضو کے فرائض، سنتوں اور آداب کی رعایت کرے، (البتہ غسل خانے میں برہنہ ہونے کی حالت میں زبان سے ذکر اور وضو کی دعائیں نہ پڑھے) پھر پورے جسم پر تین بار اچھی طرح پانی بہائے کہ جسم کی کوئی جگہ خشک نہ رہے، جسم پر پانی بہاتے ہوئے ہاتھ سے جسم کو ملتی بھی رہے۔ جسم پر پانی ڈالنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ پہلے تین بار سر پر پانی ڈالے، پھر تین بار دائیں کندھے پر، پھر تین بار بائیں کندھے پر، پھر اسی طرح تین بار باقی جسم پر پانی بہائے، لیکن اگر کوئی شخص اس ترتیب کا لحاظ کیےبغیر ہی پورے جسم پر تین بارپانی بہادے تب بھی جائز ہے۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 151):

(وفرض الغسل) أراد به ما يعم العملي كما مر، وبالغسل المفروض كما في الجوهرة، وظاهره عدم شرطية غسل فمه وأنفه في المسنون كذا البحر، يعني عدم فرضيتها فيه وإلا فهما شرطان في تحصيل السنة (غسل) كل (فمه) ويكفي الشرب عبا؛  لأن المج ليس بشرط في الأصح (وأنفه) حتى ما تحت الدرن (و) باقي (بدنه) لكن في المغرب وغيره: البدن من المنكب إلى الألية، وحينئذ فالرأس والعنق واليد والرجل خارجة لغة داخلة تبعا شرعا (لا دلكه) لأنه متمم، فيكون مستحبا لا شرطاً، خلافاً لمالك. 

(ويجب) أي يفرض (غسل) كل ما يمكن من البدن بلا حرج مرة كأذن و (سرة وشارب وحاجب و) أثناء (لحية) وشعر رأس ولو متبلداً لما في - {فاطهروا} [المائدة: 6]- من المبالغة (وفرج خارج) لأنه كالفم لا داخل؛ لأنه باطن، ولا تدخل أصبعها في قبلها به يفتي. (لا) يجب (غسل ما فيه حرج كعين) وإن اكتحل بكحل نجس (وثقب انضم و) لا (داخل قلفة). 

وفیہ ایضا (1/ 156):

 (وسننه) كسنن الوضوء سوى الترتيب. وآدابه كآدابه سوى استقبال القبلة؛ لأنه يكون غالبا مع كشف عورة وقالوا: لو مكث في ماء جار أو حوض كبير أو مطر قدر الوضوء والغسل فقد أكمل السنة (البداءة بغسل يديه وفرجه) وإن لم يكن به خبث اتباعا للحديث (وخبث بدنه إن كان) عليه خبث لئلا يشيع (ثم يتوضأ) أطلقه فانصرف إلى الكامل، فلايؤخر قدميه ولو في مجمع الماء لما أن المعتمد طهارة الماء المستعمل، على أنه لايوصف بالاستعمال إلا بعد انفصاله عن كل البدن لأنه في الغسل كعضو واحد، فحينئذ لا حاجة إلى غسلهما ثانيا إلا إذا كان ببدنه خبث ولعل القائلين بتأخير غسلها إنما استحبوه ليكون البدء والختم بأعضاء الوضوء، وقالوا: لو توضأ أولا لايأتي به ثانياً؛ لأنه لايستحب وضوءان للغسل اتفاقا، أما لو توضأ بعد الغسل واختلف المجلس على مذهبنا أو فصل بينهما بصلاة كقول الشافعية فيستحب (ثم يفيض الماء) على كل بدنه ثلاثاً مستوعباً من الماء المعهود في الشرع للوضوء والغسل وهو ثمانية أرطال، وقيل: المقصود عدم  الإسراف. وفي الجواهر لا إسراف في الماء الجاري؛ لأنه غير مضيع وقد قدمناه عن القهستاني (بادئاً بمنكبه الأيمن ثم الأيسر ثم رأسه) على (بقية بدنه مع دلكه) ندبا، وقيل: يثني بالرأس، وقيل: يبدأ بالرأس وهو الأصح. وظاهر الرواية والأحاديث. قال في البحر: وبه يضعف تصحيح الدرر.

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200860

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں