بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نعل مبارک کا نقش پاک رکھنا اور اس کے توسل سے دعا مانگنا


سوال

نقشِ نعل مبارک کو اپنے پاس رکھنا اور اس کے توسل سے دعا مانگنا، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب

جہاں تک آں حضرت سیدنا ومولانا محمد رسول اللہ ﷺ کے ان آثارِ متبرکہ کا تعلق ہے جو آپ ﷺ کے زیر استعمال رہے ہوں یا آپ ﷺ کے جسمِ اطہر سے مس ہوئے ہوں، ان سے تبرک حاصل کرنا یا انہیں بوسہ دینا یا سر پر رکھنا متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور علمائے متقدمین سے ثابت ہے۔ البتہ اگر آپ ﷺ کے ان آثارِ متبرکہ کی کوئی تصویر بنائی جائے یا اس کا کوئی نقشہ بنایا جائے تو وہ اگرچہ اصل آثار کے مساوی نہ ہوگا، لیکن چوں کہ اصل کے ساتھ مشابہت اورمشاکلت کی وجہ سے اس کو حضورِ اقدس ﷺ سے فی الجملہ نسبت حاصل ہے؛ اس لیے اگر کوئی شخص اپنے شوقِ طبعی اور محبت کے داعیہ سے اسے بوسہ دے، یا آنکھوں سے لگائے تو  فی نفسہ اس کی ممانعت پر بھی کوئی دلیل نہیں، لہذا فی نفسہ ایسا کرنا مباح ہوگا، بلکہ جس محبت کے داعیہ سے ایسا کیا جا رہا ہے وہ محبت ان شاء اللہ موجبِ اجر بھی ہوگی بشرطیکہ اس خاص عمل کو بذاتہ عبادت نہ سمجھا جائے،کیوں کہ عبادت کے لیے ثبوت شرعی درکار ہے۔
یہ تو مسئلہ کی اصل حقیقت تھی، لیکن چوں کہ ان نازک حدود کو سمجھنا اور ان نزاکتوں کو ملحوظ رکھنا عوام کے لیے مشکل معلوم ہوتا ہے، اور اس بات کا اندیشہ ہے کہ اس میں حدود سے تجاوز نہ ہو جائے،مثلاً یہ کہ ان اعمال کو بذاتہ عبادت سمجھا جانے لگے یا ادب و تعظیم میں حدود سے تجاوز ہو کر مشرکانہ افعال یا اعتقادات اس کے ساتھ نہ مل جائیں۔

اس لیے مناسب یہی ہے کہ ان نقشوں کی عمومی تشہیر اور ان کی طرف ترغیب وغیرہ سے اجتناب کیا جائے، البتہ اگر کوئی اپنے عقیدے کو درست رکھ کراپنے پاس ایسے نقشے رکھے اور ان کے توسل سے دعا مانگے تو اس کی اجازت ہے۔

’’ کفایت المفتی‘‘  میں نعلِ مبارک کے نقشہ پر حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ اور حضرت مفتی کفایت اللہؒ کی تفصیلی خط و کتابت کے بعد حضرت مفتی کفایت اللہؒ نے یہ لکھا ہے :

’’حضرت اقدس حکیم الامت مولانا تھانوی مد ظلہ کے رسالہ ’’نیل الشفا‘‘ سے اس اعلانِ  رجوع کا مطلب یہ ہے کہ رسالہ نیل الشفا سے یہ سمجھا جاتا تھا کہ نقشہ نعل شریف سے استبراک و توسل کی مسلمانوں کو تلقین و ترغیب اور نقشہ کی تشہیر و اشاعت کی تحریض مقصود ہے۔ اب حضرت مولانا دام فیوضہم نے عوام کے تجاوز عن الحد اور غلو کو مد نظر رکھ کر استبراک و توسل کی ترغیب اور تشہیر و اشاعت کی تلقین سے رجوع فرما لیا ہے۔ رہا کسی عاشقِ صادق اور مجذوبِ محبت کا والہانہ طرزِ عمل تو وہ بجائے خود مذموم نہیں، بلکہ مسکوت عنہ ہے۔ اسی طرح نفسِ مسئلہ میں تردد پیدا ہوجانے کا جو ذکر ہے، اس کا حاصل بھی بجائے جزمِ جوازِ سابق کے عدمِ جزمِ جواز ہے، نہ کہ جزمِ عدمِ جواز،  پس عشاق پر طعن نہ کیا جائے‘‘۔ (کفایت المفتی، ۲ / ۹۸، دار الاشاعت)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200382

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں