بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نذر کے روزے نہیں رکھے اور اب رکھنے کی طاقت نہیں رہی تو کیا کرے؟


سوال

میں ایک معذور بندہ ہوں 2002  میں ایف ایس سی کا امتحان دینے کے بعد میں نے یونیورسٹی میں داخلہ لینے کا ارادہ کیا، داخلہ لینے سے پہلے میں نے دل میں یہ ارادہ کیا کہ اگر مجھے اس یونیورسٹی اور اس کے اس ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ مل گیا تو میں اللہ کی رضا کے لیے ایک ہفتہ روزے رکھوں گا اور اللہ تعالی نے میری دعا سن لی اور مجھے اس یونیورسٹی اور اسی ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ اللہ نے دے دیا، لیکن میری غفلت کی وجہ سے آج تک وہ روزے میں نہ رکھ سکا اپنی غفلت کی وجہ سے ۔ابھی پچھلے دو سال سے میں بہت زیادہ بیمار ہوں؛ کیوں کہ میں معذور ہوں، اور میری معذوری یہ ہے کہ میری ہڈیاں بہت کم زور ہیں اور معمولی سا بھی گر جاتا ہوں تو میرے پاؤں کی کوئی نہ کوئی ہڈی ٹوٹ جاتی ہے، لیکن پچھلے دو سالوں سے میرے دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں کی ہڈیاں فریکچر ہوگئیں اور بستر پر ہو ں اور مجھے بڑی شدت سے یہ احساس ہے میں وہ روزے رکھ سکوں، لیکن بیماری کی وجہ سے رکھ نہیں پا رہا تو برائے مہربانی آپ سے درخواست ہے کہ روزوں کی جگہ میں کچھ متبادل کر سکتا ہوں، یعنی ہدیہ یا کفارہ ادا کر سکتا ہوں یا نہیں ؟

جواب

بصورتِ مسئولہ اگر آپ نے صرف دل میں ارادہ کیا تھا کہ مذکورہ یونیورسٹی کے مذکورہ ڈپارٹمنٹ میں داخلہ ملنے پر ایک ہفتے کے روزے رکھوں گا، لیکن زبان سے آپ نے کچھ نہیں کہا تھا تو اس سے نذر منعقد نہیں ہوئی، لہٰذا اس صورت میں روزے رکھنا واجب نہیں ہوئے، اگر استطاعت ہو تو رکھ لیجیے گا، ورنہ فدیہ لازم نہیں ہوگا۔

البتہ اگر آپ نے دل کے ارادے کے ساتھ ساتھ زبان سے بھی کہا تھا کہ اگر مجھے داخلہ مل گیا تو ایک ہفتے کے روزے رکھوں گا، تو یہ نذر منعقد ہوگئی تھی،  اور داخلہ ملنے کی صورت میں جب تک طاقت اور استعداد ہو  تب تک نذر پوری کرنا ہی لازم ہے۔

اب اگر بیماری کی وجہ سےروزوں کی استطاعت نہیں رہی لیکن  آئندہ صحت ملنے کی امید ہے تو نیت کرلیں کہ صحت مند ہوتے ہی اس نذر کو پورا کروں گا، اور اس صورت میں روزے ہی رکھنے ہوں گے۔  اور اگر خدانخواستہ آئندہ  صحت کی امید نہ رہی ہو تو  ہر روزے کے بدلے صدقہ فطر کے برابر  فدیہ واجب ہوگا۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"وقدروي عن محمد قال: إن علق النذر بشرط یرید کونه کقوله: إن شفی اﷲ مریضي أو رد غائبي لایخرج عنه بالکفارة، کذا في المبسوط. ویلزمه عین ما سمی، کذا في فتاویٰ قاضي خان".

"ولو قال مریض: ﷲ علي أن أصوم شهراً، فمات قبل أن یصح لا شيء علیه، وإن صح ولو یوماً ولم یصم لزمه الو صیة بجمیعه علی الصحیح، کا لصحیح إذا نذر ذلک ومات قبل تمام الشهر لزمه الو صیة با لجمیع بالإجماع". (الدر المختار مع ردالمحتار فصل في العوارض المبیحة لعدم الصوم ج ۲ ص ۱۷۳ و ج ۲ ص ۱۷۴۔ط۔س۔ج۲ص۴۳۷)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200504

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں