بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نذر کے روزوں کا حکم


سوال

ایک بندے نے منت مانی کہ اگر میرا فلاں کام ہو جائے تو میں دس سال تک ہر ماہ 2روزے رکھوں گا، اب اس کا کام ہو گیا ہے تو اس نے روزے رکھنا شروع کر دیے۔ مگر کچھ عرصہ رکھنے کے بعد چھوڑ دیے۔ اب اس کے لیے کیا حکم ہے؟

جواب

نذر منعقد ہوجانے پر شرعاً اب اس نذر کا مکمل کرنا لازم اور ضروری ہے، لہذا مذکورہ شخص کے لیے شرط کے پائے جانے کی وجہ سے نذر کے روزے رکھنا لازم ہے، اگر بغیر عذر کے نذر مکمل نہیں کرتا تو گناہ گار ہوگا، جب تک صحت ہے اسے نذر پوری کرنا ہوگی۔  البتہ اگر بیماری کی وجہ سے روزے رکھنے سے قاصر ہو اور آئندہ بھی صحت کی کوئی امید نہ ہوتو اس صورت میں روزوں کے بجائے فدیہ ادا کرنا ضروری ہوگا، اور ایک روزے کافدیہ ایک صدقہ فطر کے برابر ہے۔

جتنے مہینوں میں آپ نے روزے رکھ لیے وہ اداہوگئے ہیں، ان سب کی دوبارہ قضا  کی حاجت نہیں ، البتہ اگرکچھ مہینوں کے روزے رکھے ہیں اور کچھ کے چھوڑدیے ہیں تو اس صورت میں جتنے مہینے روزے رکھے وہ ادا ہوگئے، تاہم درمیان میں چھوڑدینے کے باوجود ایسے شخص کو آئندہ اپنی نذر مکمل کرنی چاہیے اور بقیہ مہینوں میں روزے رکھنے چاہییں، اور روزہ رکھنے سے عاجز آنے کی صورت میں جتنے مہینوں کے روزے چھوڑے ہیں ان کا فدیہ دینا ہوگاجیساکہ اوپر ذکرکیاگیا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010201015

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں