بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نذر کے جانور کو تبدیل کرنا


سوال

ایک آدمی نے نذر مانی کہ میرا بیٹا حافظ بنا تومیں اس بیل کو ذبح کروں گا۔اس بیل کو بیچ کر دوسرا خرید کر ذبح کر سکتا ہے؟ یا اسی بیل کو ذبح کرنا ضروری ہے(جبکہ بیٹا حافظ بن گیا ہے)

اس بیل سے وہ خود کھا سکتا ہے؟ اگر نہیں تو کیا اس کی بیوی کھا سکتی ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں چونکہ پہلے سے ملکیت میں موجود جانور کو نذر میں ذبح کے لیے متعین کیا تھااس لیے شرط پوری ہونے کی بناء پر مذکورہ  متعین جانور ہی کو ذبح کرنا ہی بہتر ہے ۔البتہ اگر یہ شخص اس جانور کو فروخت کرتاہے تو دوسرا جانور پہلے جانور سے کم قیمت پر نہ خریدیں،اگر دوسرا جانور پہلے جانور سے کم قیمت پر خریداتو اس صورت میں دونوں کی قیمتوں میں جو فرق ہے اس رقم کا صدقہ کرنا لازم ہوگا۔

نذر ماننے والا نذر کے جانور سے نہ خود کھاسکتاہے نہ اس کے اہل وعیال ،بلکہ تمام گوشت فقراء پر صدقہ کرنا لازم ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

" رجل اشترى شاة للأضحية وأوجبها بلسانه ، ثم اشترى أخرى جاز له بيع الأولى في قول أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى - ، وإن كانت الثانية شرا من الأولى وذبح الثانية فإنه يتصدق بفضل ما بين القيمتين ؛ لأنه لما أوجب الأولى بلسانه فقد جعل مقدار مالية الأولى لله تعالى فلا يكون له أن يستفضل لنفسه شيئا ، ولهذا يلزمه التصدق بالفضل قال بعض مشايخنا : هذا إذا كان الرجل فقيرا فإن كان غنيا فليس عليه أن يتصدق بفضل القيمة ، قال الإمام شمس الأئمة السرخسي الصحيح أن الجواب فيهما على السواء يلزمه التصدق بالفضل غنيا كان أو فقيرا ؛ لأن الأضحية وإن كانت واجبة على الغني في الذمة فإنما يتعين المحل بتعيينه فتعين هذا المحل بقدر المالية لأن التعيين يفيد في ذلك"۔(42/239)

البحرالرائق میں ہے :

"وإنما وجبت بالنذر فليس لصاحبها أن يأكل منها شيئا ولا أن يطعم غيره من الأغنياء ، سواء كان الناذر غنيا ، أو فقيرا لأن سبيلها التصدق وليس للمتصدق أن يأكل من صدقته ولا أن يطعم الأغنياء"۔(22/66)

فتاوی شامی میں ہے :

"قوله ( ويأكل من لحم الأضحية إلخ ) هذا في الأضحية الواجبة والسنة سواء إذا لم تكن واجبة بالنذر وإن وجبت به فلا يأكل منها شيئا ولا يطعم غنيا سواء كان الناذر غنيا أو فقيرا لأن سبيلها التصدق وليس للمتصدق ذلك ولو أكل فعليه قيمة ما أكل "۔(6/327)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200456

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں