بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نذر و نیاز کرنا


سوال

 مرنے کے بعد نذر و نیاز  کرنا اورچالیسواں کرنا صحیح ہے؟ نیاز کا گناہ کیا ہے اور بدعت اور شرک کا گناہ کیا ہے؟ نیاز کرنا کیوں غلط ہے؟

جواب

1: محض اللہ تعالی کے قرب کےحصول کےلیے  اللہ تعالی کے نام کی نذر ونیاز جائز ہے، اور اگر کسی ولی یا پیر وغیرہ کا تقرب  مقصود ہو تو  ناجائز ہے۔

 باقی تیجہ، دسواں، چالیسواں وغیرہ بطورِ رسم  کے کرنا بدعت ہے؛ کیوں کہ شریعت نے  ایصالِ ثواب  اور صدقہ و خیرات  کےلیے کسی  تاریخ یا دن، کسی کھانے اور کسی چیز کی تخصیص  نہیں  کی ہے۔

وفي الدر المختار للحصکفي:

" واعلم أن النذر الذي يقع للأموات من أكثر العوام وما يؤخذ من الدراهم والشمع والزيت ونحوها إلى ضرائح الأولياء الكرام تقربا إليهم فهو بالإجماع باطل وحرام ما لم يقصدوا صرفها لفقراء الأنام وقد ابتلي الناس بذلك، ولا سيما في هذه الأعصار وقد بسطه العلامة قاسم في شرح درر البحار ... الخ"

وفي رد المحتار لابن عابدین:

"(قوله: تقربًا إليهم) كأن يقول يا سيدي فلان إن رد غائبي أو عوفي مريضي أو قضيت حاجتي فلك من الذهب أو الفضة أو من الطعام أو الشمع أو الزيت، كذا بحر (قوله: باطل وحرام) لوجوه: منها أنه نذر لمخلوق والنذر للمخلوق لا يجوز لأنه عبادة والعبادة لا تكون لمخلوق. ومنها أن المنذور له ميت والميت لايملك.

ومنه أنه إن ظن أن الميت يتصرف في الأمور دون الله تعالى واعتقاده ذلك كفر، اللهم إلا إن قال يا الله إني نذرت لك إن شفيت مريضي أو رددت غائبي أو قضيت حاجتي أن أطعم الفقراء الذين بباب السيدة نفيسة أو الإمام الشافعي أو الإمام الليث أو اشترى حصرا لمساجدهم أو زيتا لوقودها أو دراهم لمن يقوم بشعائرها إلى غير ذلك مما يكون فيه نفع للفقراء والنذر لله عز وجل ... الخ"

(کتاب الصوم، مطلب في النذر الذي يقع للأموات من أكثر العوام،ج:۲،ص:۴۳۹،ط:سعید)

وفي الفتاوی الشامیة لابن عابدین :

" وفي البزازية: ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلى القبر في المواسم ... الخ"

(کتاب الصلاۃ ، باب صلاة الجنازة،فروع فی الجنائز ،ج:۲،ص:۱۸۹،ط:سعید)

2:بدعت کو حدیث  شریف میں گم راہی کہا گیا ہے، یعنی بدعت کا ارتکاب کرنے والا گم راہ ہے، اور گم راہی کے ارتکاب پر خدا کی طرف سے  قیامت کےدن پکڑ ہوگی۔

حدیث شریف میں ہے :

"كان رسول الله الله يقول في خطبته : ... و شرّ الأمور محدثاتها، و كلّ محدثة بدعة، و كل بدعة ضلالة، و كلّ ضلالة في النار ..."

(صحیح ابن خزیمة، ۳/۱۴۳، رقم: ۱۷۸۵، ط: المكتب الإسلامي)

غیر اللہ کے نام نذر و نیاز شرک کی ایک قسم ہے۔ قرآنِ کریم  میں شرک کو ظلمِ عظیم کہا گیا ہے، اس کے علاوہ بھی قرآنِ کریم میں کئی مقامات پر شرک کے عظیم اور کبیرہ  گناہ ہونے کاذکرہے، اللہ پاک فرماتے ہیں کہ وہ شرک (اور کفر) کے علاوہ ہر گناہ معاف فرمادیں گے، لیکن شرک کو معاف نہیں فرمائیں گے، یعنی اگر شرک سے توبہ کیے بغیر کوئی انسان مرجاتا ہے، تو اس کی نجات کی کوئی صورت نہیں ہے۔ نیز  احادیث شریف  میں بھی شرک کی سخت مذمت آئی ہے۔ سنن ابن ماجہ کی ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ  شرک  کرنے والے سے میں بری ہوں۔

وفي سنن ابن ماجه لأبی عبد الله محمد بن يزيد القزويني:

" عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "قال الله عز وجل: أنا أغنى الشركاء عن الشرك، فمن عمل لي عملًا أشرك فيه غيري، فأنا منه بريء، وهو للذي أشرك."

(أبواب الزهد، باب الرياء والسمعة،ج:۵،ص:۲۹۰،رقم:۴۲۰۲،ط: دار الرسالة العالمية)

طبرانی  کی معجم کبیر کی ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ  سات بڑے گناہوں سے بچو، اُ ن میں سے ایک شرک  بھی ہے۔

چناچہالمعجم الکبیر للطبراني  میں ہے:

"عن محمد بن سهل بن أبي حثمة، عن أبيه قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم على المنبر يقول: «اجتنبوا الكبائر السبع» ، فسكت الناس فلم يتكلم أحد، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «ألا تسألوني عنهن؟ الشرك بالله، وقتل النفس، والفرار من الزحف، وأكل مال اليتيم، وأكل الربا، وقذف المحصنة، والتعرب بعد الهجرة ."

(ج:۶،ص:۱۰۳،رقم:۵۶۳۶،ط : مكتبة ابن تيمية – القاهرة)

ایک روایت میں الموبقاتکا لفظ ہے، جس کا مطلب ہے کہ سات ہلا ک کر دینے والے گناہوں سے بچو، جن میں شرک  بھی ہے۔

3: غیراللہ کے نام کی نذر  و نیاز  چند وجوہ کی بنا پر غلط اورناجائز ہے:

۱: یہ مخلوق کے لیے نذر ہے، جب کہ نذر ایک عبادت ہے اور مخلوق کی عبادت جائز نہیں ہے۔

۲: جس کے لیے نذر و نیاز مانی ہے، وہ مردہ  ہے اور مردے سے حاجات مانگنا جائز نہیں ہے۔

۳: اگر کسی کا یہ عقیدہ ہو کہ جس پیر یا ولی کےلیے نذر مانی ہے ،وہ متصرف فی الامور ہے،تو یہ کفریہ اور شرکیہ عقیدہ ہے۔

ان وجوہ کی بنا پر ٖغیر اللہ کے نام کی نذر و نیاز   جائز نہیں ہے۔

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200268

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں