نبی بخش نام رکھنا کیسا ہے؟
واضح رہے کہ جن ناموں کے معنی سے شرک کا وہم ہورہاہو، شرعاً ایسے نام رکھنا جائز نہیں ہے، ’’نبی بخش ‘‘ کا معنی ہے،" نبی کا بخشاہوا"۔(تسہیل المبتدی، قواعد اسم مفعول سماعی، ص:21، ط:مکتبۃ البشری)
یہ نام معنی کے اعتبار سے موہمِ شرک ہے، لہذا اس نام کا رکھنا جائز نہیں ہے، اس کے بجائے انبیاءِ کرام علیہم السلام، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا صلحاء کے ناموں میں سے کسی نام رکھاجائے جو افضل بھی ہے اور باعثِ برکت بھی ہے۔
مجموعۃ الفتاوی میں ہے:
"ہمچو اسم کہ کہ ایہام مذموم غیر مشروع سازد، احتراز لازم بایں سبب علماء از تسمیہ بعبدالنبی وغیرہ منع ساختہ اند"۔
(کتاب الکراہیۃ، ج:4، ص:337، ط:امجد اکیڈمی لاہور)
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
"ولايجوز نحو عبد الحارث ولا عبد النبي، ولا عبرة بما شاع فيما بين الناس."
(باب الاسامى، ج:7، ص:2997، ط:دارالفكر)
فتاوی عزیزی میں ہے:
"شرک چنانچہ در عبادت وقدرت می شود ہمیں قسم شرک در تسمیہ ہم میشود این قسم نام نہادن شرک در تسمیہ است ازین ہم احتراز لازم است۔" (ج:1، ص:51)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144203200076
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن