"نبی اللہ" نام رکھنا کیسا ہے؟ جائز ہے یا نا جائز ہے؟ کیا ایسا نام رکھنا گناہ ہے؟
"نبی اللہ" کے معنی: "اللہ کا نبی" ہیں، یہ نام رکھنا کسی طور پر بھی درست نہیں، اگر کسی نے ایسا نام رکھ لیا ہے تو فوری طور پر تبدیل کرکے درست نام رکھے، بہتر ہے کہ "محمد" یا "عبداللہ" نام رکھ لیں، کیوں کہ نامِ "محمد" کے بہت فضائل ہیں، اسی طرح "عبد اللہ" اور "عبد الرحمن" اللہ کے محبوب اسماء میں سے ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے پسندیدہ نام "عبداللہ "اور "عبدالرحمٰن" ہیں، اور سب سے سچے نام "حارث" اور"ھمام" ہیں۔ حارث کا معنیٰ ہے: کھیتی باڑی کرنے والا ( یعنی آخرت کی تیاری کرنے والا)۔ اور ھمام کا معنیٰ ہے: فکرمند (آخرت بنانے کی فکر رکھنے والا)۔
"الأذكار المنتخب من كلام سيد الأبرار" للنوويمیں ہے:
"1/726 روينا في صحيح مسلم، عن ابن عمر رضي اللّه عنهما، قال: قال رسول اللّه صلى اللّه عليه وسلم: "إنَّ أحَبَّ أسْمائكُمْ إلى اللّه عَزَّ وَجَلَّ عَبْدُ اللّه، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ".
2/727 وروينا في صحيحي البخاري ومسلم، عن جابر رضي اللّه عنه قال: وُلد لرجلٍ منّا غلامٌ فسمَّاه القاسم، فقلنا: لانُكَنِّيك أبا القاسم ولا كرامة، فأخبرَ النبيَّ صلى اللّه عليه وسلم، فقال: "سَمّ ابْنَكَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ".
3/728 وروينا في سنن أبي داود والنسائي وغيرهما، عن أبي وُهيب الجشمي الصحابي رضي اللّه عنه قال: قال رسول اللّه صلى اللّه عليه وسلم: "تَسَمَّوا بأسْماءِ الأنْبِياءِ، وَأحَبُّ الأسْماءِ إلى اللّه تَعالى عَبْدُ اللّه وَعَبْدُ الرَّحْمَن، وأصْدَقُها: حَارِثٌ وَهمَّامٌ، وأقْبَحُها: حَرْبٌ وَمُرَّةُ". ( كتاب الأسماء، بابُ تَسْمِيةِ المَوْلُود، بابُ بيانِ أحبِّ الأسماءِ إلى اللّه عزَّ وجلّ، ص: ٢٥٥ - ٢٥٦، ط: شركة مكتبة و مطبعة مصطفي الباني بمصر)
اگر نا سمجھی میں نبی اللہ نام رکھا گیا ہے، اس صورت میں مسئلہ معلوم ہونے کے بعد فوری نام تبدیل کر لینے کی صورت میں امید ہے کہ گناہ نہ ہو۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144103200330
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن