بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نام رکھنے کے آداب/ حق / حور نام رکھنے کاحکم


سوال

(۱)نام رکھنے کے حوالے سے شریعت کی تعلیمات کیا ہیں ؟یعنی کس چیز کو مدنظر رکھنا چاہیے؟

(۲)نومولود بچے کا نام رکھنے کا حق کس کو ہے؟ اگر بچے کا داد،  یا دادی کوئی نام رکھیں اور بچے کے والد یا والدہ اس نام کو ناپسند ہونے کی بناپرکوئی اور نام رکھیں، تو کیا یہ والدین کی نافرمانی شمار ہوگا؟

(۳)بچی کا نام ’’حور ‘‘رکھنا شرعاً  کیسا ہے؟اور اس کا مطلب کیا ہے؟

جواب

1) نام رکھنے کے حوالے سے اسلامی تعلیمات یہ ہیں کہ بچہ کانام اچھی نسبت والاہو  یا  اچھے معنی والاہو۔

2) نام رکھنے کا حق والد کا ہے،  تاہم اگر بچے کے دادا یا دادی کوئی نام تجویز کریں اور اس میں کوئی شرعی خرابی نہ ہو  تو آداب اور اخلاقیات کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی خوش نودی  کی خاطر اپنی رائے چھوڑدی جائے، اس معاملہ میں والدین کی  ناراضی مول لینا صحیح نہیں، ہاں پیار محبت سے ان کو قائل کرنے کی کوشش کرنا منع نہیں ہے، اور یہ نافرمانی میں شمار نہیں ہوگا، اسی طرح اگر ان کے تجویز کردہ نام میں کوئی شرعی خرابی ہو تو اس خرابی کی وجہ سے وہ نام نہ رکھنے میں بھی امید ہے کہ نافرمانی شمار نہیں ہوگی ۔

3) ’’حور‘‘  جنت کی ایک مخلوق کا نام ہے،  اسے خوب صورتی کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے،  لہذا ’’حور‘‘  نام رکھنا درست ہے۔ بہتر یہ ہے کہ صحابیات کے ناموں سے کسی نام کا انتخاب کرلیا جائے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144102200087

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں