بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نافرمان بیوی کا حکم


سوال

1-  میری بیوی نے 35 سال سے تنگ کیا ہوا ہے، شروع شروع میں اپنی خواہش ہوتی تو ہو جاتا،لیکن میری خواہش پر بہت مشکل کرتی اور میں خودہی اس مسئلہ کو جا کرحل کرلیتا اور پھر غسل کر کے باہر آجاتا، اس بات پر جھگڑا بھی ہوتا اور بات اگر بیوی اپنے شوہر کی فطری خواہش کو نہ پورا کرے اور قریب تک آنے پر لڑائی جھگڑا کرے اور چھونے بھی نہ دے تو کیا ایسی صورت میں کیا حکم ہے؟ میری عمر 65سال ہے اور اس کی عمر ساٹھ سال، پچھلے دس سال سے اس نے ہاتھ تو لگانے ہی نہیں دیا تو میرے لیے کیا حکم ہے؟

2-  میرے دونوں جوان لڑکوں کو سرزنش کروں تو بد تمیزی سے دھتکارتی ہے، جس طرح کتے کو دھتکارتے ہیں، دونوں  لڑکے پھر میرے سامنے ناچتے ہیں، اگر کبھی یہ کہوں کہ جا کر نماز پڑھ لو تو اس پر بول دے گی کہ ہاں پڑھ لیں گے، ابھی کافی وقت پڑا ہے، بچپن سے یہی طور طریقے ہیں، نتیجہ یہ کہ میں ایک کتے کی طرح کونے میں پڑا رہتا ہوں،  چوں کہ میں کینیڈا میں رہتا ہوں،  اس لیے کچھ نہیں کہہ سکتا، ورنہ ایک منٹ میں جیل جاؤں گا، دونوں شادی شدہ ہیں، مگر بیویوں کی رخصتی نہیں ہوئی ہے۔

3- میری پینشن کے پیسے مجھ کو ایک پائی نہیں دیتی، اسی سے گھر چلتا ہے، کچھ لڑکے مدد کر دیتے ہیں، حکومت جتنے بھی پیسے دیتی ہے وہ سب اس کے ہوتے ہیں، ہر ہفتے اتوار کو باہر کھانا، پکچر دیکھنا اور قرض میرے credit card پر ہزاروں کا ہے،  کیا میرے لیے خودکشی جائز ہے؟ اگر جائز ہے تو میں خود کو ہی ختم کر لیتا ہوں،غصے میں میں بھی آجاتا ہوں، کیا کروں انسان ہوں میں بھی، کوئی جانور نہیں ہوں۔

جواب

1۔ ازدواجی زندگی پرسکون اور خوش گوار  ہونے کے لیے ضروری ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں،  نبی کریم ﷺ نے شوہرکو اپنی اہلیہ کے ساتھ حسنِ سلوک کی تلقین فرمائی ہے، چنانچہ ارشاد نبوی ہے: تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنی گھر والی کے ساتھ اچھا ہو اور میں اپنی گھر والی کے ساتھ تم میں سے سب سے بہتر ہوں، دوسری جانب بیوی کو بھی اپنے شوہر کی اطاعت اور فرماں برداری کا حکم دیا ، ارشاد نبوی ہے:  (بالفرض) اگر میں کسی کو کسی کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو بیوی سے کہتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے، اسی اطاعت شعاری کا ایک نمونہ یہ ہے کہ جب شوہر بیوی کو اپنا طبعی تقاضا پورا کرنے کے لیے بلائے تو بیوی انکار نہ کرے، اس سلسلے میں حدیثِ مبارک میں واضح تعلیمات موجود ہیں، چنانچہ ارشادِ مباک ہے: جب آدمی اپنی بیوی کو اپنی حاجت پوری کرنے کے لیےبلائے اور بیوی انکار کرے، جس پر شوہر غصہ کی حالت میں رات گزارے تو صبح تک فرشتے اس عورت پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں، دوسری روایت میں ہے: جب شوہر اپنی بیوی کو اپنی حاجت پوری کرنے کے لیے بلائے تو وہ اس کے پاس چلی جائے اگر چہ روٹی پکانے کے لیے تنور پر کھڑی ہو۔

 لہذا صورتِ مسئولہ میں  سائل اور اس کی  بیوی کو چاہیے کہ ماضی کی تلخ یادوں کو بھلا دیں اور ایک دوسرے کو دل سے معاف کرکے خوش وخرم زندگی گزاریں۔

بیوی کا شوہر سےدور رہنا  اور اچھا سلوک نہ کرنا شرعاً درست نہیں،حقوقِ زوجیت کی ادائیگی  بیوی کے ذمہ شوہر کا حق ہے، بیوی پر لازم ہے کہ وہ شوہر کے حقوق ادا کرنے میں کوتاہی نہ کرے، اگر وہ اپنی حاجت پوری کرنے کے لیے بلاتا ہے تو بلا عذر انکار نہ کرے۔

2۔ سائل اولاد کی تربیت کے سلسلے میں اگر کوئی اقدام کرے تو اس کی بیوی کے لیے اس میں رکاوٹ بننا درست نہیں، بچوں کو بھی چاہیے کہ وہ والد کا ادب و احترام کریں۔

3۔سائل کی بیوی کے لیے جائز نہیں کہ وہ سائل کی اجازت کے بغیر اس کی پینشن یا کریڈٹ کارڈ استعمال کرے، خاص کر فضول اور ناجائز کاموں میں کسی طرح جائز نہیں۔

سائل کو چاہیے کہ فرائض کی ادائیگی کے ساتھ اللہ تعالی سے اپنی اہلیہ اور بچوں کے لیے دعا کرے، ناامیدی اور مایوسی سے اجتناب کرے، خودکشی کا سوچنا یا اس کی کوشش کرنا ناجائز ہے، لہذا اس سے اجتناب کرے۔ پکچر دیکھنے سے اجتناب کیا جائے، اسی طرح کریڈٹ کارڈ بنانے میں سودی معاہدہ ہوتاہے اور قرض مقرر وقت پر ادا نہ کرنے کی صورت میں سود ادا کرنا پڑتاہے، اس لیے اس سے جلد از جلد چھٹکارا حاصل کیجیے۔

"وعنعائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «خيركم خيركم لأهله، وأنا خيركم لأهلي، وإذا مات صاحبكم فدعوه». رواه الترمذي والدارمي". (مشكاة المصابيح، كتاب النكاح، باب عشرة النساء ص: 281 ط: قديمي)

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لو كنت آمرًا أحدًا أن يسجد لأحدٍ لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها». رواه الترمذي". (مشكاة المصابيح، كتاب النكاح، باب عشرة النساء ص: 281 ط: قديمي)

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه فأبت فبات غضبان لعنتها الملائكة حتى تصبح» . متفق عليه. وفي رواية لهما قال: «والذي نفسي بيده ما من رجل يدعو امرأته إلى فراشه فتأبى عليه إلا كان الذي في السماء ساخطًا عليها حتى يرضى عنها»". (مشكاة المصابيح، كتاب النكاح، باب عشرة النساء ص: 280 ط: قديمي)

"وعن طلق بن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا الرجل دعا زوجته لحاجته فلتأته وإن كانت على التنور». رواه الترمذي". (مشكاة المصابيح، كتاب النكاح، باب عشرة النساء ص: 281 ط: قديمي) فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200715

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں