بچوں کے کپڑے وغیرہ ایک عمرتک ان کے استعمال میں آتے ہیں،اسی طرح بسااوقات بچوں کوتحفے میں ملنے والے کپڑے ایک وقت تک انہیں پہنائے جاتے ہیں ،پھرجب ان کے کپڑے چھوٹےہوجاتے ہیں توکسی اوربچے کوپہنائے جاتے ہیں یاکسی کوہدیہ کردیے جاتے ہیں ،سوال یہ ہے کہ بچوں کے کپڑے،کوٹ ،کڑے وغیرہ کسی اوربچے کوپہنانایاکسی اورکوہدیہ میں دے دیناجائزہے یانہیں؟
اگربچے بالغ ہیں توان کے استعمال کی اشیاء ان کی اجازت سے کسی اورکوپہنابھی سکتے ہیں،اورکسی غریب وغیرہ کوہدیہ بھی کرسکتے ہیں،اگربچے نابالغ ہیں توجواشیاء ان کے لیے مخصوص کردی گئیں،انہیں مالک بنادیاگیااب بچوں کی ان مملوکہ اشیاءکو کسی اوربچے کوپہنانایا ہدیہ کرنادرست نہیں، بلکہ جس بچے کے لیے بنائی گئی ہوں یااسے ہدیے میں دی گئی ہوں اسی کے کام میں لاناضروری ہے۔
البتہ والدین کوچاہیے کہ نابالغ اولادکوعام استعمال کی چیزوں(مثلاً :کپڑے،جوتے وغیرہ)کامالک نہ بنائیں ،بلکہ استعمال کی غرض سے انہیں دیں،اس صورت میں والدین بوقت ضرورت ان اشیاء کودوسرے بچوں کے استعمال میں بھی لاسکتے ہیں اورکسی کوہبہ بھی کرسکتے ہیں۔
بچوں کو تحفے میں ملنے والی اشیاء نیز وہ اشیاء جو والدین نے اپنے بچوں کو ملکیت کے طور پر دی ہوں اور ان کے محفوظ رکھنے سے خراب ہونے کا اندیشہ ہوتواس صورت میں خراب ہونے والی اشیاء کو قیمت کے عوض فروخت کرسکتے ہیں، اور اس قیمت کو بچوں ہی کے کام میں لایاجائے۔(فتاویٰ مظاہرعلوم،1/319،مسائل شتی،ط:مکتبۃ الشیخ بہادرآباد-فتاویٰ ہندیہ،11/443،ط:بیروت)
فتاویٰ شامی میں ہے:
وفيها لا يجوز أن يهب شيئا من مال طفله ولو بعوض لأنها تبرع ابتداء۔(شامی کتاب الھبۃ)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
’’ وإن كان للصغير عقار ، أو أردية ، أو ثياب ، واحتيج إلى ذلك للنفقة كان للأب أن يبيع ذلك كله وينفق عليه كذا في الذخيرة . ‘‘(فتاویٰ ہندیہ،11/443،ط:بیروت)فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143711200013
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن