بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نابالغ بچوں کو مردوں کی صفوں میں کھڑا کرنے کا حکم


سوال

 جماعت  کی صفوں میں نابالغ بچوں کو کھڑا کرنا کیسا ہے؟ اگر کوئی بچے سے کہے پیچھے جاؤ، پاس والا کہے کہ کھڑے رہنے دو، کچھ نہیں ہوتا، کیا یہ کہنا درست ہے ؟

جواب

ایسے نابالغ بچے جو مسجد کے آداب اور پاکی و ناپاکی کا خیال رکھنے کی تمیز نہیں رکھتے ہیں  ان کو تو مسجد ہی نہیں لانا چاہیے، البتہ جو نابالغ بچے سمجھ دار ہوں اور مسجد کے آداب اور پاکی و ناپاکی کا خیال رکھنے کی تمیز رکھتے ہوں ان کو مسجد لانے میں کوئی حرج نہیں ہے، ایسا  بچہ اگر اکیلا ہو تو اسے مردوں کی صف میں ہی کھڑا کردینا چاہیے، اور اگر ایسے بچے ایک سے زیادہ ہوں تو زیادہ بہتر تو یہی ہے کہ ایسے بچوں کی صف  مردوں کی صف سے  پیچھے الگ بنائی جائے ، لیکن اگر بچوں کی صف الگ سے بنانے میں فساد کا اندیشہ ہو  (مثلًا بچوں کا شرارتیں وغیرہ کر کے اپنی نماز خراب کرنے یا دیگر لوگوں کی بھی نماز میں خلل ڈالنے کا اندیشہ ہو یا بچوں کے گم ہوجانے کا خطرہ ہو ) تو ایسی صورت میں بچوں کو مردوں کی صف میں بھی کھڑا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ ایسی صورت میں زیادہ بہتر یہی ہے کہ ہر سرپرست اپنے ساتھ لائے ہوئے بچوں کو اپنے برابر ہی اپنے ساتھ کھڑا رکھے؛ تاکہ بچے متفرق بھی رہیں اور اپنے سرپرستوں کی نگرانی میں بھی رہیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 571):

"(ثم الصبيان) ظاهره تعددهم، فلو واحدا دخل الصف.

(قوله: فلو واحدًا دخل الصف) ذكره في البحر بحثًا، قال: وكذا لو كان المقتدي رجلًا و صبيًا يصفهما خلفه لحديث أنس «فصففت أنا واليتيم وراءه والعجوز من ورائنا» وهذا بخلاف المرأة الواحدة فإنها تتأخر مطلقا كالمتعددات للحديث المذكور".

’’التحریر المختار‘‘ میں ہے:

"ربما یتعین فی زماننا ادخال الصبیان فی صفوف الرجال، لان المعہود منہم اذا اجتمع صبیّانِ فاکثر، تبطل صلاة بعضہم ببعض، وربما تعدی ضررہم الٰی افساد صلاة الرجال․ انتہی".

(التحریر المختار،ج:۱،ص:۷۳، کوئٹہ)

(آپ کے مسائل اور ان کا حل،ج:۲، ص:۲۲۲) میں ہے:

”جو بچے بالکل کم عمر ہوں، ان کو تو مسجد میں لانا ہی جائز نہیں۔ نابالغ بچوں کے بارے میں اصل حکم تو یہی ہے، کہ ان کی الگ صف بالغ مردوں کی صف سے پیچھے ہو، لیکن آج کل بچے جمع ہوکر زیادہ ادھم مچاتے ہیں، اس لیے مناسب یہی ہے کہ بچوں کو ان کے اعزہ اپنے برابر کھڑا کرلیا کریں۔“

”اگر بچہ ایک ہو، تو اس کو بالغ مردوں کی صف میں ہی کھڑا کیا جائے۔اوراگر بچے زیادہ ہوں، تو ان کی الگ صف بالغ مردوں سے پیچھے ہونی چاہیے۔اور یہ حکم بطور وجوب نہیں، بطور استحباب ہے، تاہم اگر بچے اکٹھے ہوکر نماز میں گڑبڑ کرتے ہوں، یا بڑا مجمع ہونے کی وجہ سے ان کے گم ہوجانے کا اندیشہ ہو، تو ان کو بڑوں کی صف میں کھڑا کرنا چاہیے، تاکہ ان کی وجہ سے بڑوں کی نماز میں خلل نہ آئے۔ اور یہ حکم ان بچوں کا ہے، جو نماز اور وضو کی تمیز رکھتے ہوں، ورنہ زیادہ چھوٹی عمر کے بچوں کو مسجد میں لانا جائز نہیں۔“

(احسن الفتاویٰ،ج:۳،ص:۲۸۰)  میں ہے:

’’اگر صرف ایک ہی نابالغ لڑکا ہو، تو اس کو بالغوں کے ساتھ ہی کھڑا کیاجائے۔ اگر نابالغ لڑکے زیادہ ہوں، تو ان کو پیچھے کھڑا کرنا مستحب ہے، واجب نہیں، مگر اس زمانہ میں لڑکوں کو مردوں کی صفوف ہی میں کھڑا کرنا چاہیے، کیونکہ دو یا زیادہ لڑکے ایک جگہ جمع ہونے سے اپنی نماز خراب کرتے ہیں؟ بلکہ بالغین کی نماز میں بھی خلل پیدا کرتے ہیں۔

قال العلامة الرافعي رحمه اللّٰه تعالی: ”قوله ذکرہ في البحر بحثًا“ قال الرحمتي: ربما یتعین في زماننا إدخال الصبیان في صفوف الرجال، لأن المعهود منهم إذا اجتمع صبیّان فأکثر تبطل صلاة بعضهم ببعض، و ربما تعدی ضررهم إلی إفساد صلاة الرجال. انتهى."

(التحریر المختار،ج:۱،ص:۷۳)

چوں کہ یہ قول مطلق ہے، لہٰذا صفِ اوّل، ثانی اور ثالث میں کوئی فرق نہیں۔  یہ حکم ان بچوں سے متعلق ہے، جو نماز اور وضو وغیرہ کی تمیز رکھتے ہوں، زیادہ چھوٹے بچوں کو مردوں کی صف میں کھڑا کرنا مکروہ ہے؛  بلکہ مسجد میں لانا ہی جائز نہیں۔ فقط‘‘۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200739

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں