بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نائٹی پہننا


سوال

میری امی کی عمر 45 سال ہے اور وہ 5 سال سے نائٹی پہن رہی ہیں اور انڈر ویئر نہیں پہنتی ہیں، کیا یہ صحیح ہے یا پھر گناہ ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ  خاتون کے گھر میں اگر صرف محارم (والد، چچا، بیٹے، بھائی، بھتیجے، بھانجے) ہی رہتے ہوں تو ایسی صورت میں مذکورہ خاتون شب کا لباس ( نائٹی) پہن سکتی ہے، انڈر ویئر پہننا ضروری نہیں ہے، اصل فرض ستر چھپانا ہے، اور محرم کے سامنے عورت کا ستر یہ ہے: کمر ، پیٹ، رانیں بشمول اگلی پچھلی شرم گاہ اور گھٹنے، ان اعضاء میں سے کوئی عضو بھی کسی محرم کے سامنے کھولنا جائز نہیں ہے۔ اور شہوت کا اندیشہ ہو تو  (جیساکہ آج کل غالب ہے) محرم کے سامنے سینہ، بازو اور پنڈلیاں کھولنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔  یہی حکم محرم کے دیکھنے کا بھی ہے۔

بالغ یا قریب البلوغ اولاد کے لیے حکم یہ ہے کہ والدین یا ان میں سے کسی ایک کے مخصوص کمرے میں آرام کے اوقات میں یعنی فجر سے پہلے، ظہر و  عشاء کے بعد کے اوقات میں ان کی اجازت کے بغیر نہ جایا کریں۔  نیز یہی حکم دیگر محارم کے لیے ہے کہ وہ ایک دوسرے کے تنہائی اور آرام کے اوقات میں بلا اجازت داخل نہ ہوں۔ ( سورہ نور آیت نمبر:   ٥٨)

واضح رہے کہ اگر گھر میں دیور یا اس کے علاوہ کوئی غیر محرم ہو تو  اس کے سامنے ہاتھ اور پاؤں کے علاوہ پورا جسم چھپانا ضروری ہوگا، گھر میں ضروری کاموں کے دوران غیر محرم رشتہ دار کا سامنا ہو تو چادر سے پردہ کرلینا چاہیے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وَأَمَّا نَظَرُهُ إلَى ذَوَاتِ مَحَارِمِهِ فَنَقُولُ: يُبَاحُ لَهُ أَنْ يَنْظُرَ مِنْهَا إلَى مَوْضِعِ زِينَتِهَا الظَّاهِرَةِ وَالْبَاطِنَةِ وَهِيَ الرَّأْسُ وَالشَّعْرُ وَالْعُنُقُ وَالصَّدْرُ وَالْأُذُنُ وَالْعَضُدُ وَالسَّاعِدُ وَالْكَفُّ وَالسَّاقُ وَالرِّجْلُ وَالْوَجْهُ، فَالرَّأْسُ مَوْضِعُ التَّاجِ وَالْإِكْلِيلِ وَالشَّعْرُ مَوْضِعُ الْعِقَاصِ وَالْعُنُقُ مَوْضِعُ الْقِلَادَةِ وَالصَّدْرُ كَذَلِكَ وَالْقِلَادَةُ الْوِشَاحُ، وَقَدْ يَنْتَهِي إلَى الصَّدْرِ وَالْأُذُنُ مَوْضِعُ الْقُرْطِ وَالْعَضُدُ مَوْضِعُ الدُّمْلُوجِ وَالسَّاعِدُ مَوْضِعُ السِّوَارِ وَالْكَفُّ مَوْضِعُ الْخَاتَمِ وَالْخِضَابِ وَالسَّاقُ مَوْضِعُ الْخَلْخَالِ وَالْقَدَمُ مَوْضِعُ الْخِضَابِ، كَذَا فِي الْمَبْسُوطِ. وَلَا بَأْسَ لِلرَّجُلِ أَنْ يَنْظُرَ مِنْ أُمِّهِ وَابْنَتِهِ الْبَالِغَةِ وَأُخْتِهِ وَكُلِّ ذِي رَحِمٍ مَحْرَمٍ مِنْهُ كَالْجَدَّاتِ وَالْأَوْلَادِ وَأَوْلَادِ الْأَوْلَادِ وَالْعَمَّاتِ وَالْخَالَاتِ إلَى شَعْرِهَا وَصَدْرِهَا وَذَوَائِبِهَا وَثَدْيِهَا وَعَضُدِهَا وَسَاقِهَا، وَلَايَنْظُرُ إلَى ظَهْرِهَا وَبَطْنِهَا، وَلَا إلَى مَا بَيْنَ سُرَّتِهَا إلَى أَنْ يُجَاوِزَ الرُّكْبَةَ، وَكَذَا إلَى كُلِّ ذَاتِ مَحْرَمٍ بِرَضَاعٍ أَوْ مُصَاهَرَةٍ، كَزَوْجَةِ الْأَبِ وَالْجَدِّ وَإِنْ عَلَا، وَزَوْجَةِ ابْنِ الِابْنِ وَأَوْلَادِ الْأَوْلَادِ وَإِنْ سَفَلُوا، وَابْنَةِ الْمَرْأَةِ الْمَدْخُولِ بِهَا، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ دَخَلَ بِأُمِّهَا فَهِيَ كَالْأَجْنَبِيَّةِ، وَإِنْ كَانَتْ حُرْمَةُ الْمُصَاهَرَةِ بِالزِّنَا اخْتَلَفُوا فِيهَا، قَالَ بَعْضُهُمْ: لَايَثْبُتُ فِيهَا إبَاحَةُ النَّظَرِ وَالْمَسِّ، وَقَالَ شَمْسُ الْأَئِمَّةِ السَّرَخْسِيِّ: تَثْبُتُ إبَاحَةُ النَّظَرِ وَالْمَسِّ لِثُبُوتِ الْحُرْمَةِ الْمُؤَبَّدَةِ، كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ. وَهُوَ الصَّحِيحُ، كَذَا فِي الْمُحِيطِ. وَمَا حَلَّ النَّظَرُ إلَيْهِ حَلَّ مَسُّهُ وَنَظَرُهُ وَغَمْزُهُ مِنْ غَيْرِ حَائِلٍ وَلَكِنْ إنَّمَا يُبَاحُ النَّظَرُ إذَا كَانَ يَأْمَنُ عَلَى نَفْسِهِ الشَّهْوَةَ، فَأَمَّا إذَا كَانَ يَخَافُ عَلَى نَفْسِهِ الشَّهْوَةَ، فَلَايَحِلُّ لَهُ النَّظَرُ، وَكَذَلِكَ الْمَسُّ إنَّمَا يُبَاحُ لَهُ إذَا أَمِنَ عَلَى نَفْسِهِ وَعَلَيْهَا الشَّهْوَةَ، وَأَمَّا إذَا خَافَ عَلَى نَفْسِهِ أَوْ عَلَيْهَا الشَّهْوَةَ فَلَا يَحِلُّ الْمَسُّ لَهُ، وَلَا يَحِلُّ أَنْ يَنْظُرَ إلَى بَطْنِهَا أَوْ إلَى ظَهْرِهَا، وَلَا إلَى جَنْبِهَا، وَلَا يَمَسُّ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ، كَذَا فِي الْمُحِيطِ. وَلِلِابْنِ أَنْ يَغْمِزَ بَطْنَ أُمِّهِ وَظَهْرَهَا خِدْمَةً لَهَا مِنْ وَرَاءِ الثِّيَابِ، كَذَا فِي الْقُنْيَةِ". ( كِتَابُ الْكَرَاهِيَةِ، الْبَابُ الثَّامِنُ فِيمَا يَحِلُّ لِلرَّجُلِ النَّظَرُ إلَيْهِ وَمَا لَا يَحِلُّ لَهُ وَمَا يَحِلُّ لَهُ مَسَّهُ وَمَا لَا يَحِلُّ، ٥ / ٣٢٨، ط: دار الفكر) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144106200151

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں