بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نئے گھر کو منحوس سمجھنا


سوال

 میرے ساتھ ایک مسئلہ پیش آرہا ہے جس کا مجھے حل چاہیے۔ در اصل ہم پہلے لیاقت آباد میں رہتے تھے لیکن اب ہم ملیر منتقل ہوگئے ہیں ، اب ہمیں ۳ سال ہوگئے ہیں۔ جب ہم لیاقت آباد میں رہتے تھے تو  وہاں سے میرے چھوٹے بھائی نے اپنا کام شروع کیا تھا جو کہ صحیح چل رہا تھا لیکن جب ہم یہاں منتقل ہوئے تو شروعات میں والدہ کی طبیعت کافی زیادہ خراب ہوگئی جس کی وجہ سے میرے بھائی کا کام ختم ہوگیا اور اس وقت سے میرا بھائی بے روز گار ہے۔ اب حال میں اس نے دوبارہ کام شروع کیا ہے تو پھر میری والدہ کی طبیعت خراب ہورہی ہے اور میری چھوٹی بہن بھی کام کر رہی تھی لیکن جیسے ہی بھائی کا کام لگ گیا میری بہن کا کام رک گیا، ہمیں کافی لوگوں نے کہا کہ گھر کا مسئلہ ہے اور ہم نے ایک دو مرتبہ گھر تبدیل کرنے کا ارادہ بھی کیا لیکن یہاں ایک پیسا بھی نہیں بچ رہا جس سے ہم گھر تبدیل کریں ۔ آپ بتائیں کیا مسئلہ ہے۔

جواب

واضح رہے کہ حالات اور آزمائش انسان کے اوپر اللہ کی طرف سے آتیں ہیں اور ان کا حل اللہ کی طرف رجوع کرنا ہے ، اللہ سے دعا مانگ کر اللہ پر توکل کرنا چاہیے۔ نیز سائل اور اس کے گھر والوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ کہیں کوئی ایسا گناہ تو نہیں ہورہا جس کی وجہ سےاللہ نے اس آزمائش میں ڈالا اس گناہ سے توبہ بھی کرنی چاہیے۔

نیز یہ تصور کرنا کہ نئے گھر کی نحوست کی وجہ سے ایسا ہورہا ہے تو یہ تصور بلکل غلط ، بے بنیاد اور شریعت کے خلاف ہے۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعن سعد بن مالك - رضي الله عنه - أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " «لا هامة ولا عدوى ولا طيرة. وإن تكن الطيرة في شيء ففي الدار، والفرس والمرأة» " رواه أبو داود

(ففي الدار) : أي فهي في الدار الضيقة (والفرس) : أي الجموح (والمرأة) : أي السليطة، والمعنى أن فرض وجودها تكون في هذه الثلاثة، ويؤيده ما ورد في الصحيح بلفظ: " «إن كان الشؤم في شيء ففي الدار والمرأة والفرس» "، والمقصود منه نفي صحة الطيرة على وجه المبالغة فهو من قبيل قوله صلى الله عليه وسلم: ( «لو كان شيء سابق القدر لسبقته العين» ) فلا ينافيه حينئذ عموم نفي الطيرة في هذا الحديث وغيره."

(کتاب الطب و الرقی، باب الفأل و الطیرۃ ج نمبر ۷ ص نمبر ۲۸۹۹، دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411100970

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں