بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میں تمہیں طلاق دیتا ہوں کہنے کا حکم


سوال

اگر کوئی آدمی ایک ٹائم میں تین بار یہ لفظ استعمال کرے کہ ''میں تمہیں طلاق دیتا ہوں'' تو کیا طلاق ہو جاتی ہے ؟ یا کہ طلاق تین الگ الگ ٹاہم میں ہو گی؟

جواب

شوہر کے اپنی بیوی کو  تین بار  یہ کہہ دینے سے کہ ''میں تمہیں طلاق دیتا ہوں'' اس کی بیوی پر  اسی وقت تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں، اور رجوع یا نکاحِ جدید کا اختیار بھی باقی نہیں رہتا۔ لیکن اگر کوئی شوہر اس طرح طلاق دے تو اس کو اس پر گناہ ملتا ہے۔

الف : بخاری شریف  میں ہے:

"عن عائشة، أن رجلاً طلق امرأته ثلاثاً، فتزوجت فطلق، فسئل النبي صلى الله  عليه وسلم: أتحل للأول؟ قال: «لا، حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول»".

 اس حدیث میں "طلق امرأته ثلاثاً" کا لفظ  اس بات پر دلیل ہے  تین طلاقیں اکھٹی دی  گئی تھیں ، چناں چہ  'عمدۃ القاری' میں ہے  کہ "طلق امرأته ثلاثاً"  کا  جملہ  اس  حدیث کے  "ترجمة الباب "کے مطابق ہے، کیوں کہ اس سے ظاہر یہی ہے  کہ یہ تینوں طلاقیں اکٹھی دی گئی تھیں۔

          'فتح الباری' میں ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے "طلقها ثلاثاً" کے ظاہرسے استدلال کیا ہے ؛ کیوں کہ اس سے یہی  بات متبادر ہوتی ہے  کہ یہ اکٹھی دی گئی تھیں۔

         ب: صحیح البخاری  میں ہے:

" أن عائشة، أخبرته: أن امرأة رفاعة القرظي جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إن رفاعة طلّقني فبتّ طلاقي، وإني نكحت بعده عبد الرحمن بن الزبير القرظي، وإنما معه مثل الهدبة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لعلك تريدين أن ترجعي إلى رفاعة؟ لا، حتى يذوق عسيلتك وتذوقي عسيلته»".

         حافظ ابن حجر  رحمہ اللہ  " فبت طلاقي " کی تشریح میں لکھتے ہیں  کہ  اس میں دوسرا احتمال یہ ہے کہ  انہوں نے اس عورت کو ایسی طلاق دی تھی   جس کے بعد تعلق بالکل ختم ہوجاتا ہے ، اوروہ اس صورت میں ہوتا ہے جب ایک ساتھ یا الگ الگ  تین طلاقیں دی جائیں ،  اس احتمال کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ  امام بخاری رحمہ اللہ   نے 'کتاب الادب' میں دوسرے طریق سے ذکر کیا ہے " طلقنی آخر ثلاث تطلیقات".

         ج:  امام بخاری رحمہ اللہ عویمر العجلانی  رضی اللہ عنہ کے واقعہ لعان کے بیان کے بعد  حدیث  کے یہ الفاظ بیان کرتے ہیں:

" قال عويمر: كذبت عليها يا رسول الله إن أمسكتها، فطلقها ثلاثاً قبل أن يأمره رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال ابن شهاب: «فكانت تلك سنة المتلاعنين»".

مذکورہ واقعہ کے متعلق امام ابو داؤد نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان تینوں  طلاقوں کو  نافذ کردیا تھا،چناں چہ فرماتے ہیں:

" عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، فِي هَذَا الْخَبَرِ، قَالَ: فَطَلَّقَهَا ثَلَاثَ تَطْلِيقَاتٍ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْفَذَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ مَا صُنِعَ عِنْدَ النَّبِيِّ صلّىالله عليه وسلم سُنَّةٌ".

         د  : سنن ابن ماجہ میں ہے کہ  عامر شعبی  سے روایت ہے کہ میں نے  فاطمہ بنت حبیش سے  کہا :مجھے اپنی طلاق کے بارے میں بتائیں ،  انہوں نے مجھے بتایا کہ مجھے میرے شوہر نے تین طلاقیں دیں  ، وہ یمن سے باہر تھے تو آپﷺ نے ان تین طلاقوں کو نافذ قراردیا۔

         اس روایت سے  امام ابن ماجہ نے ایک  مجلس کی تین طلاقوں پر استدلال کیا ہے، اور باب قائم کیا ہے "باب من طلاق ثلاثاً في مجلس واحد" ،  جس کے تحت اس حدیث کو  ذکر کیا ہے،  اسی روایت کو امام نسائی رحمہ اللہ نے سنن نسائی  میں   اور امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے سنن  ابی داؤد  میں ذکر کیا ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200354

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں