بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مینڈک کے بارے میں حکم


سوال

 کسی سائل نے سوال کیا:  مینڈک کھانا حلال ہے یا حرام؟ آپ نے جواب دیا :ایسی کوئی حدیث نہیں۔  میں یہاں حدیث پیش کر رہا ہوں ، برائے مہربانی! اپنے جواب پر نظر ثانی کریں۔

"حدّثنا محمّد بنُ كثيرٍ، أخبرنا سُفيان عَن ابنِ ابي ذئبٍ عن سعيد بنِ خالدٍ عَن سعيد بنِ المسيَّب عَن عبد الرحمن بنِ عُثمان  أنّ طبيباً سأل النبيَّ -صلّى الله عليه وسلّم- عَن ضفدعٍ يجعلُها في دواءٍ؟ فنهاه النبيُّ -صلّى الله عليه وسلّم- عَن قتلِها".

’’عبدالرحمن بن عثمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک طبیب نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دوا میں مینڈک کے استعمال کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مینڈک  كوقتل کرنے سے منع فرمایا‘‘ ۔

  مینڈک کھانا حلال ہے یا حرام ؟

جواب

سوال میں آپ نے جس حدیث کاذکر  کیا ہے،یہ حدیث  کئی کتبِ احادیث میں صحیح سندکے ساتھ موجود ہے، لیکن اس میں  مینڈک کے حلال یا حرام ہونے کا سوال نہیں کیا گیا،  بلکہ  مینڈک کو قتل کرکے دوا میں ڈالنا جائز ہے یا نہیں ؟ اس کے بارے میں سوال کیا گیاہے،اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قتل کركے دوا ميں استعمال كرنے سے منع فرمایا ہے۔ غرض یہ کہ  مینڈک حلال ہے یا حرام  ؟ اس  حدیث میں اس کو صراحت کے ساتھ بیان نہیں کیا گیا،اسی وجہ سےہمارے پہلےجاری شدہ  فتوے میں مینڈک کے حرام ہونے کے بارے میں اس حدیث  کو بطورِ دلیل پیش نہیں کیا گیا، اگر چہ اس مسئلہ کو   اس حدیث سےمستنبط کیا جا سکتا ہےاور  بعض فقہائےکرام  رحمہم اللہ نے  مستنبط کیا بھی ہے۔

 باقی مینڈک کے بارے میں  حکم ہمارے پہلے جاری شدہ فتوے میں ذکر کردیا گیا  ہےکہ حنفیہ کے ہاں سمندری مخلوقات میں سے صرف مچھلی کھانے کی اجازت ہے،مینڈک چوں کہ مچھلی کی قسم نہیں ہے، بلکہ  خبائث میں سے ہے اور اللہ تعالی نے خبائث کو حرام کردیاہے، اس لیے مینڈک کا کھانا حلال  نہیں ہے۔

"بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع"میں ہے:

"وقوله عزّ شأنُه {ويُحرِّم عليهم الخبائث} [الأعراف: 157] والضُّفدعُ والسّرطانُ والحيّةُ ونحوُها مِن الخبائث، ورُوي عَن رسول الله - صلّى الله عليه وسلّم - سُئل عَن ضُفدعٍ يُجعل شحمُه في الدواء فنهَى - عليه الصّلاة والسّلام - عَن قتل الضَّفادع، وذلك نهيٌ عَن أكلِه".

(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، كتاب الذبائح والصيود، 5/35، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144104200633

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں