بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میلاد کے متعلق حضرت تھانوی کی عبارت پر اشکال


سوال

حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کی میلاد کے متعلق رائے کی وضاحت فرمائیے; کیوں کہ کچھ بریلوی حضرات حضرتؒ کی مندرجہ ذیل عبارت سے اشکال پیدا کرتے ہیں کہ حضرت کے نزدیک میلاد جائز اور مستحب عمل تھا:

"میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلّم مستحب عمل ہے اس میں شامل منکرات کو ترک کرنا چاہیے  نہ کہ مستحب عمل کو "۔ (مجالس حکیم الامت، صفحہ نمبر 160 ،مطبوعہ دارالاشاعت اردو بازار کراچی )

بندہ خود اس کتاب میں یہ عبارت پڑھ چکا ہے ، اب آپ سے استدعا ہے کہ : حضرت تھانوی اور علمائے دیوبند کا اس مسئلے کے بارے میں مؤقف واضح فرمادیں۔

جواب

جواب سے قبل حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی عبارت کا سیاق و سباق ملاحظہ ہو:

"محفل میلاد

فرمایا کہ: اس کے متعلق پہلے میرا یہ خیال تھا کہ:  اس محفل کا اصل کام ذکر رسول ﷺ تو سب کے نزدیک خیر و سعادت اور مستحب ہی ہے، البتہ اس میں جو منکرات اور غلط رسمیں شامل کردی گئیں ہیں ان کے ازالہ کی کوشش کرنی چاہیے، اصل امر محفل مستحب کو ترک نہیں کرنا چاہیے اور یہ دراصل ہمارے حضرت حاجی صاحب قدس سرہ کا مسلک تھا، حضرت کی غایت شفقت و عنایت اور محبت کے سبب میرا بھی یہی ذوق تھا اور یہی عام طور پر صوفیائے کرام کا مسلک ہے، حضرت مولانا رومی بھی اسی کے قائل ہیں، انہوں نے فرمایا :                           بہر کیکے تو گلیمے را مسوز

لیکن ہمارے فقہاء حنفیہ کا مسلک ان معاملات میں یہ ہے کہ: جو مباح یا مستحب مقاصد شرعیہ میں سے ہو اس کے ساتھ تو یہی معاملہ کرنا چاہیے کہ اگر اس میں کچھ منکرات شامل ہوجائیں تو منکرات کے ازالہ کی فکر کی جائے ،اصل کام کو نہ چھوڑا جائے، مثلاً: مسجدوں کی جماعت میں کچھ منکرات شامل ہوجائیں تو اس کی وجہ سے جماعت چھوڑ دینا جائز نہیں ہوگا، بلکہ منکرات کے ازالہ کی کوشش مقدور بھر واجب ہوگی، اسی طرح اذان، تعلیم قرآن وغیرہ کا معاملہ ہے کہ وہ مقاصد شرعیہ میں سے ہیں ،اگر ا ن میں کچھ منکرات شامل ہوجاویں تو ازالہ منکرات کی کوشش کی جاوے گی، اصل کام کو نہ چھوڑا جائے گا، لیکن جو مستحبات ایسے ہیں کہ: اصل مقاصد شرعیہ ان پر موقوف نہیں، اگر ان میں کچھ منکرات و بدعات شامل ہوجاویں تو ایسےمستحبات ہی کو ترک کردینا چاہیے ، مثلاً: زیارت قبور ، ذکر رسول کے لیے کسی محفل و مجلس کا انعقاد کہ اس پر کوئی مقصد شرعی موقوف نہیں، وہ بغیر اس مجلس اور خاص صورت کے بھی پورے ہوسکتے ہیں، اگر ان میں منکرات و بدعات شامل ہوجاویں تو یہاں ایسی مجالس اور ایسے اجتماعات ہی کو ترک کردینا لازم ہوجاتا ہے، احادیث اور آثار صحابہ اور اقوال ائمہ میں اس کے بہت سے شواہد موجود ہیں جن کو علامہ شاطبی نے کتاب الاعتصام میں جمع فرمادیا ہے۔

جس درخت  کے نیچے رسول اللہ ﷺ کا بیعت لینا، اس پر اللہ تعالی کی رضا قرآن میں مذکور ہے، جب اس کے نیچے لوگوں کا اجتماع اور بعض منکرات کا خطرہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے محسوس فرمایا تو اس درخت ہی کو کٹوادیا ، حالاں کہ اس کے نیچے جمع ہونے والے حضرات صحابہ کوئی ناجائز کام نہ کرتے تھے، محض تبرکاً جمع ہوتے  اور ذکر اللہ و ذکر رسول ہی میں مشغول رہتے تھے، مگر چوں کہ ایسا اجتماع مقصود شرعی نہیں تھا اور آئند اس میں شرک و بدعت کا خطرہ تھا؛ اس لیے اس اجتماع ہی کو ختم کردیا گیا، اس طرح کے اور بھی متعدد واقعات حضرت فاروق اعظم اور دوسرے حضرات صحابہ سے بکثرت منقول ہیں، کتاب الاعتصام میں وہ مستند کتابوں کے حوالے سے نقل کیے گئے ہیں، ان احادیث و آثار کی بنا پر فقہاء حنفیہ کا مسلک ایسے معاملات میں یہی ہے کہ : جو امر اپنی ذات میں مستحب ہو ، مگر مقصود شرعی نہ ہو ، اگر اس میں منکرات و بدعات شامل ہوجائیں یا شامل ہونے کا خطرہ قوی ہو تو ایسے مستحبات کو سرے سے ترک کردیا جائے، لیکن جو امر مستحب مقاصد شرعیہ میں سے ہو یا س پر کوئی مقصد شرعی موقوف ہو تو اس کو شمول منکرات کی وجہ سے ترک نہ کیا جائے ، بلکہ ازالہ منکرات کی کوشش کرنا چاہیے۔

حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ اسی مسلک حنفی کے پابند تھے؛ اس لیے مروجہ محفل میلاد جو بہت سے منکرات و بدعات پر مشتمل ہوگئی ہے ،اس میں شرکت کی اجازت نہیں دیتے تھے، کچھ زمانے تک اس مسئلہ میں حضرت گنگوہی رحمہ اللہ سے بھی میرا اختلاف رہا، مگر بالآخر دلائل کی قوت اور دین کی حفاظت کے پیش نظر یہی مسلک احوط ور اسلم نظر آیا ، اسی کو اختیار کرلیا ، لیکن جو مسلک صوفیائے کرام نے اختیار فرمایا ہے، میں اس کو بھی بے اصل نہیں جانتا، فقہائے مجتہدین سے حضرات شافعیہ کا بھی یہی مسلک ہے، علامہ شامی نے مصافحہ بعد الصلاۃ کے مسئلے میں شیخ محی الدین نووی شافعی رحمہ اللہ کا یہی مسلک نقل کیا ہے ؛ اس لیے جو صوفیائے کرام محفل میلاد خالی از منکرات پر عامل ہیں ان پر بھی اعتراض اور بدگمانی نہیں کرنا چاہیے۔"

اس عبارت سے معلوم ہوا کہ: حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا پہلے یہ ذوق تھاکہ بدعات و خرافات سے بچتے ہوئے محفل میلاد منعقد کرنے کی گنجائش ہے، لیکن بعد میں انہوں نے اس سے رجوع کرلیا تھا اور محفل میلاد منعقد کرنے کومطلقاً  ممنوع قرار دیا، حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے خطبات "خطبات حکیم الامت" (1/ 78 ط: ادارہ تالیفات اشرفیہ) میں حضرت رحمہ اللہ کا ایک خطبہ شامل ہے، جس میں انہوں نے مروجہ میلاد کو قرآن، حدیث ، اجماع اور قیاس سے رد فرمایا ہے،آپ نے اس  طویل عبارت کےابتدائی حصہ کو اپنے الفاظ میں ذکر کیا ہے، مذکورہ عبارت کے شروع میں حضرت تھانوی رحمہ اللہ اپنے ابتدائی زمانے کا مسلک بیان فرمارہے ہیں، لہذا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ میلاد کی محفل منعقد کرنے کے قائل تھے۔

باقی رہی بات نبی کریم ﷺ کا ذکر مبارک کرنا ، چاہے وہ آپ ﷺکی ولادت باسعادت کا تذکرہ ہو ، آپ ﷺ کے لباس و پوشاک وغیرہ  کو یاد کرناہو یا آپ ﷺ کی نشست و برخاست، چلنا پھرنا، کھانا پینا اور دیگر احوال بیان کرناہو موجب رحمت اور باعث برکت ہے، اس میں کسی مسلمان کے لیے  ذرا سا شبہ کرنے کی بھی گنجائش نہیں، لیکن مروجہ میلاد اس مخصوص صورت کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین اور تبع تابعین کے دور  میں موجود نہیں تھا  اور  نہ ہی کسی شرعی دلیل سے ثابت ہے،بلکہ یہ  رسم کئی مفاسد پر مشتمل ہے، اس مجلس کے انعقاد اور اس میں شرکت کو لازم سمجھا جاتا ہے، اگر کوئی شخص شریک نہ ہو تو اسے لعن طع کیا جاتا ہے، مخصوص تاریخ میں میلاد کے انعقاد کا اہتمام کیا جاتا ہے، اس محفل میں قیام کرنا ایک ضروری امر  ہے جس میں یہ اعتقاد رکھا جاتا ہے کہ نبی کریم ﷺ ہماری اس مجلس میں شریک ہیں، ان مجالس میں عموماموضوع روایات بیان کی جاتی ہیں، رات دیر تک محفل رہتی ہے جس کی وجہ سے فجر کی نماز متاثر ہوتی ہے اور اہل محلہ بھی پریشان ہوتے ہیں، ان مجلسوں کے منعقد کرنے میں بے حد اسراف اور فضول خرچی کی جاتی ہے، ان خرابیوں کی بنا پر  مروجہ طریقے سے میلاد منانا شرعا درست نہیں ، اس سے بچنا ضروری ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143902200074

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں