بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 رمضان 1445ھ 19 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

میزان بینک میں ملازمت کرنا


سوال

 کیا میزان بینک میں جاب کر سکتے ہیں؟

جواب

                            واضح رہے کہ بینک کا مدار سودی نظام پر ہے، اور  سود کا لینا دینا، لکھنا اور اس میں گواہ بننا سب ناجائز  اور حرام ہے، اور بینک  ملازم سود لینے ، دینے  یا لکھنے کے کام میں مصروف ہوتے ہیں  یا کم سے کم ان کاموں میں معاون ہوتے ہیں اور یہ سب ناجائز و حرام ہیں۔

                              لہذا بینک  کی ملازمت  ناجائز ہے خواہ وہ کسی بھی شعبہ میں ہو، اور تنخواہ بھی حرام ہے، اس لیے  بینک کے علاوہ  کسی اور جگہ  جائز ملازمت تلاش کرنی چاہیے، اور سود کی گندگی سے اپنے  آپ  کو محفوظ رکھنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے؛  کیوں کہ حرام  کے مقابلے میں حلال  مال  تھوڑا   ہی کیوں  نہ ہو  اس میں  سکون اور برکت   ہوتی ہے،  جب کہ حرام مال خواہ  کتنا ہی زیادہ  ہو اس  میں بے برکتی، تباہی اور بربادی ہوتی ہے۔

       ارشاد باری  تعالی ہے:

{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ  فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ}[البقرة: 278، 279]

ترجمہ:اے ایمان والو!  اللہ سے ڈرو ، اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑدو،  اگر  تم ایمان والے ہو، پھر اگر تم (اس پر عمل  ) نہ کروگے تو اشتہار سن لو جنگ کا  اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول  کی طرف  سے۔(از بیان القرآن)

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

{يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ} [البقرة: 276]

      ترجمہ: اللہ سود کو مٹاتے ہیں ،  اور صدقات کو بڑھاتے ہیں۔(از بیان القرآن)

ارشاد باری تعالی ہے:

{ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ} [المائدة: 2]

ترجمہ: اور گناہ  اور زیادتی میں  ایک  دوسرے  کی اعانت مت کرو ، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرا کرو ، بلاشبہ  اللہ تعالیٰ  سخت سزا دینے والے ہیں۔(از بیان القرآن)

حدیثِ مبارک  میں ہے:

"عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه» ، وقال: «هم سواء»". (الصحیح لمسلم، 3/1219، باب لعن آكل الربا ومؤكله، ط: دار احیاء التراث ، بیروت) (مشکاة المصابیح،  باب الربوا، ص: 243، قدیمی)

ایک اور حدیثِ مبارک  میں ہے:

"وعن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الربا وإن كثر فإن عاقبته تصير إلى قل. رواهما ابن ماجه والبيهقي في شعب الإيمان". (مشکاة المصابیح، باب الربوا، ص: 246، ط: قدیمی)

                        نیز یہ  کہ   مروجہ غیر سودی بینکوں  کا اگرچہ یہ دعویٰ ہے کہ وہ علماءِ کرام کی نگرانی میں  شرعی اصولوں کے مطابق کام کرتے ہیں،  لیکن ملک کے اکثر جید اور مقتدر علماءِ کرام  کی رائے یہ ہے کہ  ان  بینکوں کا طریقہ کار شرعی اصولوں کے مطابق نہیں ہے،  اور مروجہ غیر سودی بینک اور  روایتی بینک کےبہت سے  معاملات  تقریباً  ایک جیسے ہیں، لہذا ان میں ملازمت کرنے کا بھی یہی حکم ہے۔(تفصیل کے لیے  ” مروجہ اسلامی بینکاری“  نامی کتاب کا مطالعہ کرلینا چاہیے)  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200310

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں