بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میری طرف سے طلاق طلاق، پھر رجوع کے بعد کہا: جاؤ اپنے گھر، میری طرف سے فارغ ہو


سوال

شوہر نے بیوی سے فون پر بات کرتے ہوئے غصے میں کہا: میری طرف سے طلاق طلاق۔ اس کے بعد اس نے رجوع کیا،  رجوع کے بعد لڑکا کہتا ہے میں نے ڈرانے کے لیے کہا تھا، طلاق نہیں دی تھی۔ پھر اس واقعے کے کچھ عرصہ بعد فون پر بات کرتے ہوئے لڑکے نے غصہ میں کہا: جاؤ اپنے گھر میری طرف سے فارغ ہو۔ لڑکا کہتا ہے میری طلاق کی نیت نہیں تھی اور اس وقت طلاق کی کوئی بات بھی نہیں تھی،  لڑکی نے خرچے کی بات کی تھی اور لڑکے کو دو ماہ سے تنخواہ نہیں ملی تھی،  اس لیے ایسا ہوا تھا۔ اور اس کے علاوہ دونوں میاں بیوی آپس میں خوش بھی رہتے تھے،  ایک بیٹا ہےسات آٹھ ماہ کا۔ کیا ایک طلاق ہوئی ہے یا دو یا تین؟ 

جواب

 جب لڑکے نے پہلے  دو مرتبہ طلاق طلاق کہا تو اس سے بیوی کو دو طلاق ہوگئی،  ڈرانے کی نیت کا کوئی اعتبار نہیں۔  اس کے بعد رجوع کرنے کے بعد صرف ایک طلاق کا اختیار باقی تھا۔  پھر شوہر کا اپنی بیوی سے یہ کہنا:  ’’ میری طرف سے فارغ ہو ‘‘ یہ الفاظِ کنائی ہیں، جن سے بغیر نیت کے طلاق واقع نہیں ہوتی،  چوں کہ ان الفاظ کے استعمال کے بعد شوہر ان الفاظ سے طلاق کی نیت کا انکار کررہا ہے،  اس لیے ان الفاظ سے طلاق واقع نہیں ہوئی، مذکورہ عورت بدستور اپنے شوہر کے نکاح میں ہے۔لیکن ایک طلا ق کا اختیار باقی ہے، لہٰذا گفتگو میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

’’ومایصلح جواباً وشتماً خلیة ،بریة، بتة،بتلة، بائن حرام  ...  ففي حالة الرضاء لایقع في الألفاظ کلها إلا بالنیة‘‘. ( ج: ۱، ص: ۳۷۴، ۳۷۵)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200275

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں