بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

میراث میں بیٹےکو بیٹی سے دوگنا حصہ ملنے کی حکمت


سوال

میراث میں دو حصے بیٹے کے اور ایک حصہ بیٹی کا ہوتا ہے، اس تقسیم کی شرعی وجہ کیا ہے؟ 

جواب

میراث میں بیٹے کو بیٹی سے دوگنا حصہ ملنے کی وجہ کی طرف اشارہ خود قرآن کریم میں ہی (سورہ نساء :۳۲) میں مذکور ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

{الرجال قوامون على النساء بما فضل الله بعضهم على بعض وبما أنفقوا من أموالهم} 

یعنی مرد، عورتوں کے ذمہ دار ہیں؛ اس لیے کہ اللہ نے ایک دوسرے پر بڑائی دی ہے، اور اس واسطے کہ انہوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں۔ اس بڑائی کا اثر میراث میں ظاہر ہوتا ہے۔

نیز مرد کو میراث میں زیادہ حصہ دینے کی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اہل وعیال  اور اموال وعزتوں کی حفاظت کرتا ہے اور ضرورت پڑنے پر جنگوں میں حصہ لیتا ہے،اور  مردوں پر اخراجات کا بوجھ بھی زیادہ ہوتا ہے، اس کے برعکس عورتوں پر نہ مصارف کا بوجھ ہوتا ہے اور نہ وہی وہ جنگوں میں شریک ہوتی ہیں ۔

مزید تفصیل کے لیے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کی کتاب ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘  اور اس کی اردو شرح رحمۃ اللہ الواسعۃ (از مفتی سعید احمد پالن پوری)کا مطالعہ کیجیے۔ فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144102200282

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں