بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مرحومہ کی میراث تقسیم نہ کرنا


سوال

میری  والدہ کا انتقال 2018ءمیں ہوگیا تھا، میری والد ہ کے پاس پراپرٹی میں دو پلاٹ ہیں،ایک پلاٹ میرے چھوٹے بھائی کے ساتھ مل کر خریدا تھا اور 16لاکھ کیش تھے، جو میڈیسن کے کاروبار میں  لگا ئے ہوئے تھے،والدہ کے انتقال کے بعد ایک پلاٹ بک گیا تھا اور اس کی رقم میرے والد کے پاس موجود ہے اور 16 لاکھ کیش کو میرے والد نے یہ کہہ کر  رکھاہوا ہے کہ میری والدہ نے ان کو کہا تھا کہ یہ پیسے آپ اپنے پاس رکھیے گا ، جب کہ ہمیں پتہ ہے کہ ایسا انہوں نے کچھ نہیں کہا  تھا،ایک پلاٹ کا کیس کورٹ میں جائے گا اور ایک پلاٹ جو بھائی کے ساتھ لیا تھا وہ چھوٹے بھائی کے پاس ہے اور میری والدہ کی گاڑی بھی چھوٹے بھائی کے پاس ہے، ہم دو بہن اور تین بھائیوں میں سب سے کمزور میری حالت ہے، میری نوکری بھی مسلسل نہیں ہے اور میں اپنی بیوی کے ساتھ کرایہ پر رہتا ہوں اور میرے پاس مہینہ گزارنے میں مسئلہ  ہوتا ہے ،میرے والد ،بھائی اور بہنیں پراپرٹی  بیچ کر تقسیم کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آتے ہیں، جب کہ  میرے والد نہ ان 16 لاکھ کیش کو دیتے ہیں  اور نہ وہ رقم  جو پلاٹ بیچ انہوں نے رکھ لیے ہیں اور چھوٹے بھائی نے ایک پلاٹ اور موٹر اپنے پاس رکھا ہوا ہے اور بڑا بھائی بات چیت کے لیے  نہیں آتا، میں چاہتا ہوں کہ آپ  اسلام کی روشنی میں فتوی دیں کہ میرے بھائی ،بہنوں کو کیا کرنا چاہیے اور میرے والد جنہوں نے پیسے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں اور پوچھنے پر غصہ ہوتے ہیں ان کو کیا کرنا چاہیے ؟

جواب

سائل کے والد اور بھائی بہنوں کو چاہیے کہ وہ مرحومہ کی جائیداد ورثا میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کریں، سائل کے والد کے لیے جائز نہیں کہ وہ مرحومہ کی کیش رقم اور پلاٹ بیچ کر ملنے والی رقم دیگر ورثا کی اجازت کے بغیر اپنے پاس رکھے، اسی طرح سائل کے چھوٹے بھائی پر لازم ہے  کہ وہ مرحومہ کی گاڑی اور پلاٹ میں مرحومہ کے حصے کو ورثا کے درمیان تقسیم کرے، ورثا کو ان کا حصہ نہ دینا بہت سخت گناہ ہے۔

صورتِ مسئولہ میں مرحوم کے ترکے کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ مرحوم کی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد، اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اس کی ادائیگی کے بعد، اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے  ایک تہائی  ترکہ میں سے نافذ کرنے کے بعد بقیہ کل جائیداد کے  32 حصے کرکے مرحومہ کے شوہر کو  8 حصے (25%)، اس کے ہر بیٹے کو 6 حصے (18.75%)اور ہر بیٹی کو 3 حصے (9.375%)ملیں گے،فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200291

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں