بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کوایک شہرسے دوسرے شہرمنتقل کرنا


سوال

پوچھنایہ ہے کہ میں نے کتابوں میں پڑھاہے کہ میت کوایک شہرسے دوسرے شہرمنتقل کرناجائزنہیں ہے،حالانکہ میں نے کئی علماء کے بارے میں پڑھاہے کہ ان کی میت کوبھی منتقل کیاگیاہے، حضرت علامہ یوسف بنوریؒ کی میت کوبھی کراچی منتقل کیاگیاہے ،برائے مہربانی یہ مسئلہ حل فرمادیں۔

جواب

کسی شخص کاانتقال اگردورانِ سفرہویااگرکسی شہرمیں علاج معالجہ کے لیے لے جایاگیاہواوراس دوران وہ فوت ہوجائے،یااگرکسی مقام پرکسی شخص کے انتقال کے بعداس کی تدفین میں مشکلات ہوں تومذکورہ امورکی بنا پرمیت کے منتقل کرنے میں حرج نہیں ہے۔بلاضرورت میت کوایک شہرسے دوسرے شہرمنتقل کرناخلاف اولیٰ اورمکروہ ہے۔ [فتاویٰ شامی،1/663،ط:ایچ ایم سعیدکراچی][مراقی الفلاح: 337،کتاب الجنائز،فصل فی حملہاودفنہا]

بہر  میت منتقل کرنے میں اقوال مختلف ہیں، مفتی بہ یہ ہے کہ مسافتِ  قصر  کی مقدار  انتقالِ میت  مکروہ ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143604200020

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں