بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کو غسل دینے سے پہلے اس کے قریب تلاوت کرنا


سوال

میت کے سامنے غسل دینے  سےپہلے قران پڑھنا  کیسا ہے؟ 

جواب

 میت   کو غسل دینے سے پہلے اس کے قریب  قرآنِ  مجید کی تلاوت کرنے میں یہ تفصیل ہے کہ  اگر  میت کو مکمل کپڑے سے ڈھانک دیا جائے تو اس کے پاس قرآنِ مجید کی تلاوت کرنے میں   کوئی حرج نہیں ہے خواہ قرآنِ مجید اٹھا کر تلاوت کی جائے یا بغیر اٹھائے  زبانی تلاوت کی جائے، اور اگر میت کو کپڑے سے ڈھانکا نہ گیا ہو تو پھر غسل دینے سے پہلے میت کے قریب تلاوت کرنا مکروہ ہے، البتہ تسبیح وغیرہ پڑھی جاسکتی ہے۔

 اور میت کو غسل  دینے کے بعد خواہ میت کے قریب تلاوت کی جائے یا دور ، بہرصورت جائز ہے، نیز میت جس کمرے میں ہو اس کے علاوہ دوسرے کمرے میں بیٹھ کر تلاوت کرنا   بھی بلاکراہت جائز ہے۔

       فتاوی شامی میں ہے:

"ويقرأ عنده القرآن إلى أن يرفع إلى الغسل، كما في القهستاني معزياً للنتف. قلت: وليس في النتف إلى الغسل بل إلى أن يرفع فقط، وفسره في البحر برفع الروح. وعبارة الزيلعي وغيره: تكره القراءة عنده حتى يغسل، وعلله الشرنبلالي في إمداد الفتاح؛ تنزيهاً للقرآن عن نجاسة الميت لتنجسه بالموت، قيل: نجاسة خبث، وقيل: حدث، وعليه فينبغي جوازها كقراءة المحدث.

(قوله: كقراءة المحدث) …… [تنبيه] الحاصل أن الموت إن كان حدثاً فلا كراهة في القراءة عنده، وإن كان نجساً كرهت، وعلى الأول يحمل ما في النتف، وعلى الثاني ما في الزيلعي وغيره. وذكر ط أن محل الكراهة إذا كان قريباً منه، أما إذا بعد عنه بالقراءة فلا كراهة. اهـ.قلت: والظاهر أن هذا أيضاً إذا لم يكن الميت مسجى بثوب يستر جميع بدنه ؛لأنه لو صلى فوق نجاسة على حائل من ثوب أو حصير لايكره فيما يظهر، فكذا إذا قرأ عند نجاسة مستورة، وكذا ينبغي تقييد الكراهة بما إذا قرأ جهراً، قال في الخانية: وتكره قراءة القرآن في موضع النجاسة كالمغتسل والمخرج والمسلخ وما أشبه ذلك، وأما في الحمام فإن لم يكن فيه أحد مكشوف العورة وكان الحمام طاهراً لا بأس بأن يرفع صوته بالقراءة، وإن لم يكن كذلك فإن قرأ في نفسه ولايرفع صوته فلا بأس به ولا بأس بالتسبيح والتهليل وإن رفع صوته اهـ". (2 / 193، کتاب الصلوٰۃ، باب  صلاۃ الجنازۃ، ط؛ سعید)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201302

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں