بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کو رشتہ داروں کے علاوہ دوسرے سے غسل دلوانا


سوال

ہمارے محلے میں ایک ہی برادری کے لوگ آباد ہیں،  اگر کسی کا انتقال ہو جاتا ہے تو میت غسل کے لیے احباب مخصوص ہیں، جو میت کو بلا معاوضہ غسل دیتے ہیں، پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا یہ لوگ میت کو غسل دے سکتے ہیں یا وارث خود غسل دے؟اور اگر وارث غسل، کفن کا طریقہ نہ جانتے ہوں تو کیا صورت اختیار کی جائے؟

جواب

میت کے عزیز واقارب کو چاہیے وہ میت کو خود غسل دیں، دوسروں کے سپرد نہ کریں، یہ زیادہ بہتر ہے، اور اگر میت کے عزیز واقارب غسل دینا نہ جانتے ہوں  تو کسی  متقی، نیک ، پرہیزگار اور سنجیدہ آدمی سے غسل دلانا چاہیے؛ تاکہ اگر خدانخواستہ مسلمان میت کے بارے میں کوئی ناپسندیدہ بات دیکھے تو اس کی پردہ پوشی کرے، لہذا صورتِ مسئولہ میں مرحوم کے قریبی رشتہ داروں کے لیے بہتر یہی ہے وہ خود غسل دیں ، ورنہ مذکورہ برادری کے لوگ غسل دے سکتے ہیں، اور کم از کم ان کے ساتھ کوئی رشتہ دار بھی معاونت کرلے تو یہ زیادہ بہتر  ہے۔

الفتاوى الهندية (1/ 159):
"ويستحب للغاسل أن يكون أقرب الناس إلى الميت، فإن لم يعلم الغسل فأهل الأمانة والورع، كذا في الزاهدي.
يستحب أن يكون الغاسل ثقةً يستوفي الغسل ويكتم ما يرى من قبيح ويظهر ما يرى من جميل، فإن رأى ما يعجبه من تهلل وجهه وطيب رائحته وأشباه ذلك يستحب له أن يحدث به الناس، وإن رأى ما يكره من سواد وجهه ونتن رائحته وانقلاب صورته وتغير أعضائه وغير ذلك لم يجز له أن يحدث به أحداً، كذا في الجوهرة النيرة". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201274

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں