بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کا قرضہ ادا کرنا اور اس مقصد کے لیے لوگوں سے رقم جمع کرنا


سوال

 کیا مرحوم دوست کا قرضہ اتارنے کے لیے لوگوں سے رقم لے سکتے ہیں؟ اور کیا صدقہ خیرات کی رقم سے قرض اتارا جا سکتا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مرحوم کے ذمہ لوگوں کا قرضہ ہو تو اس کے ترکہ میں سے تجہیز وتکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد کل ترکہ سے قرضہ ادا کیا جائے گا، اور ورثاء کے ذمہ یہ ادائیگی کرنا لازم ہے، اس کے بعد اگر ترکہ بچ جائے تو وہ ورثاء میں تقسیم ہوگا، ورثاء اگر ترکہ میں سے قرضہ ادا کیے بغیر میراث تقسیم کرلیں گے تو گناہ گار ہوں گے۔

البتہ اگر مرحوم کے ترکہ میں مال نہ ہو،  یا مال تو ہو لیکن ورثاء اس سے قرض ادا نہ کررہے ہوں اور کوئی شخص اپنی خوشی سے مرحوم کی طرف سے قرض ادا کردے تو یہ جائز ہے اور مرحوم پر یہ اس کا تبرع واحسان ہوگا، اس مقصد کے لیے اگر وہ خوشی سے خود یا لوگوں سے اسی مقصد کے لیے رقم لے لے اور اس سے قرضہ ادا کردے ایسا کرنا جائز ہے، اور ثواب کا کام ہے، اس سے میت کا بوجھ اتر جائے گا۔ البتہ صدقاتِ واجبہ یا زکاۃ  کی رقم سے میت کا قرضہ ادا کرنے سے زکاۃ ادا نہیں ہوگی۔

حدیثِ مبارکہ میں ہے : 

’’ سلمہ ابن اکوع  ؓ  سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں ایک جنازہ آیا،  لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ ! اس پر نماز پڑھ دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:  کیا اس شخص کے ذمہ قرض ہے؟ انہوں نے عرض کیا: جی ہاں!  پھر آپ ﷺ نے فرمایا: کیا وہ شخص کوئی جائیداد وغیرہ چھوڑ گیا ہے کہ جس سے اس شخص کا قرض ادا کیا جا سکے؟ لوگوں نے عرض کیا: نہیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم اپنے صاحب پر نماز پڑھ لو، ایک انصاری شخص کہ جن کو حضرت ابوقتادہ کہتے تھے، انہوں نے عرض کیا : آپ ﷺ نماز پڑھ لیں، وہ قرض میرے ذمہ ہے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے (مطمئن ہو کر) نماز جنازہ پڑھی‘‘۔

سنن النسائي (4 / 65):
’’ حدثنا يزيد بن أبي عبيد، قال: حدثنا سلمة يعني ابن الأكوع قال: أتي النبي صلى الله عليه وسلم بجنازة، فقالوا: يا نبي الله، صل عليها، قال: «هل ترك عليه ديناً؟» ، قالوا: نعم، قال: «هل ترك من شيء؟» قالوا: لا، قال: «صلوا على صاحبكم»، قال رجل من الأنصار يقال له: أبو قتادة: صل عليه وعلي دينه، فصلى عليه‘‘. 
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200915

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں