بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

میت پر قرض کا دعوی کرنا


سوال

میرے والد صاحب کو فوت ہوئے دوہفتے ہوگئے ہیں میرے والد نے کوئی وصیت نہیں کی کہ کسی کا کچھ لین دین ہے،اب کچھ حضرات  دعوی کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہمارے آپ کے والد پر اتنے اتنے قرض ہیں،اور کچھ حضرات کہتے ہیں کہ ہم نے آپ کے والد کو سود پر پیسے دیے تھے جس کا نہ کوئی گواہ اور نہ ہی کوئی تحریری ثبوت ہے،اور نہ ہی ہمارے والد نے اس کے متعلق ہمیں کوئی بات بتلائی ہے،اب آپ ہماری شرعی راہ نمائی فرمائیں،ہم سب کاقرض دیناچاہتے ہیں تاکہ کسی کی کوئی حق تلفی نہ ہو اور قیامت کے روز ہمارے والد کی پکڑ نہ ہو۔

جواب

شریعت میں دعویٰ کرنے والے پرگواہوں کا پیش کرنالازم ہے ،اور اگر مدعی (دعویٰ کرنےوالے)کے پاس گواہ نہ ہوں تومدعی علیہ(جس پر دعویٰ کیا جائے)سے قسم لی جائے گی۔لہذاجواشخاص  میت پرقرض یاکسی اورچیز کادعویٰ کررہے ہیں اگران کے پاس اپنے اس دعویٰ پر گواہ نہ ہوں،اور میت کے ورثاء میں سے کوئی شخص ان کے  دعویٰ کااقراربھی نہیں کرتاتواس صورت میں  محض دعویٰ کے ذریعہ  قرض وصول نہیں کیاجاسکتا،بلکہ شرعی طور پر یہ دعویٰ کرنے والے افراد  میت کے ورثاء سے حلف لیں گے  کہ انہیں اس قرض کا علم نہیں اور نہ میت نے انہیں بتایاہے،اگر ورثاء اس بات پر حلف اٹھالیتے ہیں تو دعویٰ کرنے والوں کا دعویٰ ساقط ہوجائے گا۔ اور اگرمیت کے ورثاء حلف اٹھانے سے انکار کرتے ہیں  تو دعویٰ ثابت  ہوجائے گا اور مرحوم کے ترکہ میں سے  ادائیگی لازم ہوگی۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں   مرحوم پر رقم کا دعویٰ کرنے والے لوگوں کے پاس گواہ نہیں ہیں اور میت کے ورثاء میں سے کوئی ان کے قرض کی رقم کااقرار بھی نہیں کرتا اور قسم کے ذریعہ ورثاء اس رقم کاانکار کرتے ہیں تو دعویٰ کرنے والوں کا دعوی ساقط ہوجائے گا۔

''وإن لم تکن للمدعی بینة وأراد استحلاف هذا الوارث یستحلف علی العلم عند علمائنا - رحمهم الله تعالی - بالله ما تعلم أن لهذا علی أبیک هذا المال الذی ادعی وهو ألف درهم ولا شیء منه،فإن حلف انتهی الأمر وإن نکل یستوفی الدین من نصیبه''۔(فتاویٰ هندیة، کتاب ادب القاضی، الباب الخامس والعشرون فی اثبات الوکالة والوراثة وفی اثبات الدین،-فتاویٰ شامی، 5/553،ط:دارالفکر بیروت)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143811200059

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں