بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

میاں بیوی کی ناچاقی سے متعلق ایک سوال


سوال

اگر بیوی اپنی مرضی سے جھگڑا کر کے چار سال سے میکے میں اپنے دو بچوں کے ساتھ بیٹھی رہے اور جب شو ہر مختلف طریقوں اور جرگوں سے مسئلہ کا حل تلاش نہ کر پاۓ اور فیملی کورٹ بھی شوہر کے حق میں تین سال بعد فیصلہ سنا دے اور کورٹ تنسیخِ  نکاح بھی نہ کرے اور عورت خلع بھی نہ لے اور کورٹ کے فیصلے کے باوجود گھر واپس نہ آۓ   اور اگر مرد دوسر ی شادی کرنا چاہے اور پچھلی بیوی کو بھی طلاق نہ دے تو ایسی صورت میں اس مسئلہ کا حل کیا ہے؟

 

جواب

سوال میں مذکورہ مسئلے کا حل یہ ہی ہے کہ دونوں خاندانوں کے بڑے ایک مرتبہ پھر بیٹھیں اور تمام امور پر غور کرکے ناچاقیوں کے اسباب معلوم کریں، اور ان کو حل کرنے کی کوشش کریں؛ تا کہ نباہ کی کوئی صورت بن سکے اور علیحدگی کی نوبت نہ آئے۔ لیکن  اگر کسی طرح مسئلہ حل نہ ہوتا ہو اور اختلافات بھی ختم نہ ہوتے ہوں  تو شوہر کے لیے یہ جائز ہو گا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے کر علیحدہ کر دے۔  اور اگر شوہر طلاق دینے پر راضی نہ ہو تو بیوی کے لیے یہ جائز ہو گا  کہ وہ اپنے مہر کی معافی یا کسی دوسرے معاوضہ کے ساتھ شوہر سے خلع کا معاملہ کر لے اور ایسی صور ت میں عدت گزارنے کے بعد عورت کے لیے دوسری شادی کرنا جائز ہو گا۔

اور اگر عورت خلع پر بھی راضی نہ ہو اور شوہر دوسرا نکاح کرنے کے بعد دونوں بیویوں کے حقوق کی ادائیگی اور دونوں میں حتی الوسع برابری پر قدرت رکھتاہو تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ دوسرا نکاح کرلے، پھر اگر پہلی بیوی ساتھ رہنے پر راضی ہو تو دونوں کو رکھ لے۔ اور اگر دونوں کو ساتھ رکھ کر ان کے حقوق کی ادائیگی اور برابری پر قدرت نہیں ہے اور شوہر مزید صبر نہیں کرسکتا تو ان حالات میں بہتر یہ ہے کہ پہلی بیوی کو طلاق دے کر سادگی کے ساتھ دوسری جگہ نکاح کرلے۔

اس صورت میں شوہر کا اگرچہ ظاہری طور پر مالی نقصان ہے کہ اس نے مہر، ولیمہ اور شادی کے دیگر اخراجات پر رقم خرچ کی ہے، اور بظاہر خلع کی صورت میں وہ اپنے خرچے کا کسی حد تک تدارک چاہ رہاہے، جو بلاعوض طلاق کی صورت میں اسے حاصل نہیں ہوگا، لیکن جب جرگے اور عدالت سے بھی مسائل کا حل نہ نکلے تو میاں بیوی کے رشتے کو لٹکا کر رکھنے اور ایک دوسرے کو اذیت دینے کے بجائے معاملہ خوش اسلوبی سے ختم کردینے کی صورت میں اللہ تعالیٰ جانبین کے لیے کشائش پیدا فرمائیں گے۔ بہرحال بہتر صورت یہی ہے کہ اگر عورت ضد پر ہے اور ماننے کے لیے تیار نہیں ہے، تو شوہر اپنا حق معاف کرتے ہوئے یا تو اسے منائے، یا پھر اپنا  مالی نقصان برداشت کرتے ہوئے اللہ کی رضا کے لیے اسے چھوڑ دے، تقوے کی راہ یہی ہے۔ [النساء: 129،130]فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200618

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں