بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میاں بیوی کا علیحدہ کمروں میں سونے کا حکم


سوال

 کیا  شوہر  بغیر کسی وجہ کے بیوی  سے الگ ہوکر دوسرے  کمرے میں دوسرے بستر پر سوسکتاہے؟جب کہ بیوی کو یہ بات بالکل بھی پسند نہ ہو۔کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

جواب

عمومی احوال میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ میاں بیوی  ایک ہی  بستر پر آرام کریں۔ کسی معقول و معتبر  وجہ کے بغیر شوہر کو الگ کمرے میں آرام نہیں کرنا چاہیے،بعض علماء نے  شوہر کے بیوی کے ساتھ سونے کو سنت شمار فرمایاہے۔

البتہ بعض حالات میں اگر شوہر کسی  وجہ سے علیحدہ سوئے تو بیوی کو ایک ہی بستر پر سونے کا اصرار کرنا بھی درست نہیں،مثلاً   بیوی ایام کی حالت میں ہو اور ساتھ سونے کی صورت میں فتنے میں پڑنے کا اندیشہ ہو  یا اولاد ہونے کی صورت میں، یااولاد کے باشعور ہونے کی مدت کے بعد عمومًا میاں بیوی بستر جدارکھتے ہیں، یا شوہر تھکاماندہ ہے اور  اسے آرام یاراحت کی ضرورت ہے تو ایسے مواقع پر علیحدہ سونے کی گنجائش  بھی حدیث و فقہ کی کتب سے معلوم ہوتی ہے۔ باقی ایام کی حالت میں اگر فتنے میں وقوع کا خطرہ نہ ہو تو میاں بیوی ساتھ سو سکتے ہیں، بلکہ  یہود  کی مخالفت کی وجہ سے  ساتھ سونا چاہیے کہ وہ لوگ ان ایام میں عورت کو چھونا، اس کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا  کھانا وغیرہ تک غلط سمجھتے تھے۔

حاصل یہ ہے کہ اس سلسلہ میں میاں بیوی کے درمیان اتفاق و مفاہمت ضروری ہے، اس طرح کی معمولی باتوں کو جھگڑے یا افتراق  کا باعث نہیں بناناچاہیے۔بلکہ دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق اور اعذار کالحاظ رکھنا چاہیے۔شوہر کو بھی مستقل اپنا بستر بیوی سے جدا رکھنا اور بیوی کے حقوق کو نظر اندازکرنا جائز نہیں، نیز اعذار کی وجہ سے شوہر کبھی علیحدہ سوئے تو بیوی کو اصرار بھی نہیں کرنا چاہیے۔

 مشکوۃ شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:

’’ حضرت  عائشہ  صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ " جب میں ایام سے ہو جاتی تو بستر سے اتر کر بوریہ پر آجاتی تھی، چنانچہ جب تک کہ وہ پاک نہ ہو جاتیں  نہ تو  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے نزدیک آتے تھے  اور نہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک آتی تھیں۔‘‘

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

وأما تعديد الفراش للزوج فلا بأس به لأنه قد يحتاج كل واحد منهما إلى فراش عند المرض ونحوه . واستدل بعضهم بهذا أنه يلزمه النوم مع امرأته ، وأن له الانفراد عنها بفراش وهو ضعيف ; لأن النوم من الزوجة وإن كان ليس بواجب ، لكنه معلوم بدليل آخر أن النوم معها بغير عذر أفضل : هو ظاهر فعل رسول الله - صلى الله عليه وسلم - . قال الطيبي : ولأن قيامه من فراشها مع ميل النفس إليها متوجها إلى التهجد أصعب وأشق : ومن ثم ورد : " عجب ربنا من رجلين ، رجل ثار عن وطائه ولحافه من بين حبه وأهله إلى صلاته ، فيقول الله لملائكته : انظروا إلى عبدي ثار عن فراشه ووطائه من بين حبه وأهله إلى صلاته رغبة فيما عندي وشفقا فيما عندي . " الحديث . قلت : لا كلام في هذا ، وإنما الكلام في الاستدلال بالحديث على بيان الجواز وعدم الوجوب ، وهو لا ينافي الأفضلية المستفادة من سائر أقواله وأفعاله - صلى الله عليه وسلم - فقوله ضعيف غير صحيح . 

(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، کتاب اللباس)

فتح الباری میں ہے :

’’وقد روي أن النبي ( إنما كانَ ينام معَ الحائض حيث لَم يكن لَهُم سوى فراش واحد، فلما وسع عليهم اعتزل نساءه في حال الحيض.

خرجه الإمام أحمد مِن رواية ابن لهيعة ، عَن يزيد بنِ أبي حبيب ، عَن سويد بنِ قيس ، عَن ابن قريط الصدفي ، قالَ : قل لعائشة : أكان النبي ( يضاجعك وأنت حائض ؟ قالت : نعم ، إذا شددت عليّ إزاري ، ولم يكن لنا إذ ذاك إلا فراش واحد ، فلما رزقني الله فراشاً آخر اعتزلت رسول الله‘‘۔(1/418)

فیض القدیر شرح الجامع الصغیر میں ہے :

’’و أن السنة أن يبيت الرجل مع أهله في فراش واحد و لايجري على سنن الأعاجم من كونهم لايضاجعون نساءهم بل لكل من الزوجين فراش فإذا احتاجها يأتيها أو تأتيه.‘‘ (1/398)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200302

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں