بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

میاں بیوی پر ایک دوسرے کے والدین کے کیا حقوق ہیں؟


سوال

خاوند پر اپنی بیوی کے ماں باپ کے کیا اور کون سے حقوق ہیں؟  یعنی بیوی کا تو سمجھ میں آرہا ہے کہ اس پر اپنے ساس سسر کے حقوق ہیں یا نہیں۔لیکن شوہر پراپنے ساس سسر کے کیا حقوق ہیں؟

جواب

اسلام کے معاشرتی نظام میں خاندان کواساسی حیثیت حاصل ہے ۔خاندان کااستحکام ہی تمدن کےاستحکام کی علامت ہے، یہی وجہ ہےکہ ایک طرف اللہ رب العزت نے قرآنِ مجید میں معاشرتی احکامات بیان فرمائے ہیں تو دوسری طرف رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان احکامات کا عملی نمونہ امت کے لیے پیش فرمایا ہے، پس نکاح وہ تقریبِ باوقار ہے جس سےخاندان کےاساسی ارکان مرد وعورت کےسسرال کارشتہ ظہور میں آتاہے، جسے اللہ تعالیٰ نے نسبی رشتے کی طرح اپنی بڑی نعمت شمار فرمایا ہے، اسلام انسانی رشتوں میں باہمی محبت، احترام، وفا، خلوص، ہم دردی، ایثار، عدل، احسان، اور باہمی تعاون کادرس دیتا ہے، میکا ہو یا سسرال دونوں اپنی جگہ محترم ہیں، اور ان دو جگہوں سے وابستہ رشتے بھی لائقِ احترام اور انسان کی بنیادی ضرورت نکاح سے وابستہ ہیں، میاں بیوی میں سے ہر ایک دونوں گھرانوں کی تنظیمی عمارت کابنیادی ستون ہیں۔

پس شریعتِ مطہرہ نے میاں بیوی میں سے ہر ایک کو اخلاقاً ایک دوسرے کے بڑوں کے ساتھ حسنِ سلوک و احترام کرنے کا پابند کیا ہے، تاہم دونوں میں سے کسی ایک کو بھی ایک دوسرے کے والدین، و دیگر سسرالیوں کی خدمت کا اس طور پر پابند نہیں کیا کہ اگر خدمت نہ کی تو وہ گناہ گار ہوں، لیکن اگر وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اپنے حقیقی والدین کی طرح اپنے ساس سسر کی عزت و احترام کے ساتھ ساتھ ان کی خدمت بھی کریں تو یہ ان کے لیے دنیا میں باعثِ خیر و برکت اور آخرت میں باعثِ اجر و ثواب ہوگا، اور اچھے اخلاق کا تقاضا بھی یہی ہے۔ اسی طرح ساس سسر بھی اپنی بہو، داماد پر اپنی حقیقی بیٹی، بیٹے کی طرح شفقت کریں، ان کے ساتھ پیار و محبت سے پیش آئیں، تو گھر کا ماحول بھی خوش گوار ہوگا اور کسی ایک کو دوسرے سے شکایت بھی نہیں ہوگی۔

مذکورہ بالا تفصیل کو نہ سمجھنے کی وجہ سے عموماً معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہوجاتا ہے نتیجۃً  بہو کو  شوہر و سسرال والوں کی طرف سے پیسا جاتا ہے، اور مرد اپنے آپ کو آزاد سمجھتا ہے، حال آں کہ ان رشتوں میں میاں وبیوی کی ذمہ داریوں میں شریعتِ مطہرہ نے کسی قسم کا تفاوت روا نہیں رکھا ہے، لہذا اس مسئلہ کو سمجھنا نہایت ضروری ہے، تاکہ رشتوں میں کسی قسم کا خلل و بگاڑ پیدا نہ ہو۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201397

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں