بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مہر مؤجل کا مطالبہ کرنا


سوال

میرا حق مہر 1 لاکھ روپے رکھا گیا تھا جو کہ زیور کی صورت میں ادا کرنا تھا، لیکن میرا زیور 77000 کی مالیت کا ہے ،میرے شوہر نے شادی کے بعد کہا کہ باقی میں رقم ادا کروں  گا، شادی کو2 سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے ،میرا سوال ہے کہ نکاح نامے میں صرف ایک  لاکھ کا لکھا گیا ہے اور مؤجل زیورات کی صورت میں ادا کی گئی ہے، صرف یہی لکھا گیا ہے کیا یہ صحیح ہے کہ اتنا لکھ کے نکاح نامے میں با قی کالم خالی چھوڑ دیے گئےہیں ؟کیا میں اس پر سوال اٹھا سکتی ہوں؟ اور میرے شوہر نے باقی رقم ادا نہیں کی ہے۔

جواب

جب شوہر نے ۷۷۰۰۰ مالیت کا زیور دینے کے بعد کہا تھا کہ باقی رقم میں ادا کروں گا تو بقیہ ادئیگی شوہر پر لازم ہے ، سائلہ مطالبہ کرسکتی ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن بينوا قدر المعجل يعجل ذلك، وإن لم يبينوا شيئاً ينظر إلى المرأة وإلى المهر المذكور في العقد أنه كم يكون المعجل لمثل هذه المرأة من مثل هذا المهر فيجعل ذلك معجلاً ولايقدر بالربع ولا بالخمس وإنما ينظر إلى المتعارف، وإن شرطوا في العقد تعجيل كل المهر يجعل الكل معجلاً ويترك العرف، كذا في فتاوى قاضي خان ... ولو قال: نصفه معجل ونصفه مؤجل كما جرت العادة في ديارنا ولم يذكر الوقت للمؤجل اختلف المشايخ فيه قال بعضهم: لايجوز الأجل ويجب حالاً، وقال بعضهم: يجوز ويقع ذلك على وقت وقوع الفرقة بالموت أو بالطلاق، وروى عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - ما يؤيد هذا القول، كذا في البدائع.

لا خلاف لأحد أن تأجيل المهر إلى غاية معلومة نحو شهر أو سنة صحيح، وإن كان لا إلى غاية معلومة فقد اختلف المشايخ فيه، قال بعضهم: يصح وهو الصحيح وهذا؛ لأن الغاية معلومة في نفسها وهو الطلاق أو الموت ألا يرى أن تأجيل البعض صحيح، وإن لم ينصا على غاية معلومة، كذا في المحيط. وبالطلاق الرجعي يتعجل المؤجل ولو راجعها لايتأجل، كذا أفتى الإمام الأستاذ، كذا في الخلاصة."

(کتاب النکاح، ج نمبر ۱، ص نمبر ۳۱۸)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010201074

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں