بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مگرا / شارک کھانے کا حکم


سوال

"مگرا مچھلی"  کھانا کیسا ہے؟

جواب

احناف  رحمہم اللہ کے  نزدیک  سمندری مخلوقات میں سے صرف مچھلی کا کھانا حلال ہے ، مچھلی کے علاوہ کسی اور سمندری جانور کا کھانا جائز نہیں ہے۔

"احکام القرآن" للجصاص میں ہے :

" الأولیٰ: قوله تعالیٰ : ﴿ أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ ﴾ هذا حکم بتحلیل صید البحر، وهو کل ما صید من حیتانه ...الثالثة : قال أبو حنیفة : ... لایؤکل شيء من حیوان البحر إلا السمک، وهو قول الثوری في روایة أبي إسحاق الفزاري عنه".  ( 3/670) سورۃالمائدۃ آیت 96 ط :قدیمی ) 

"الدرمع الرد" میں ہے : 

"(ولا) يحل (حيوان مائي إلا السمك) الذي مات بآفة ولو متولداً في ماء نجس ولو طافيةً مجروحةً، وهبانية، (غير الطافي) على وجه الماء الذي مات حتف أنفه. (قوله: ولو متولداً في ماء نجس) فلا بأس بأكلها للحال؛ لحله بالنص".(6/306۔307 کتاب الذبائح ط : سعید ) 

"بدائع الصنائع" میں ہے :

" أما الذي يعيش في البحر فجميع ما في البحر من الحيوان محرم الأكل إلا السمك خاصةً؛ فإنه يحل أكله إلا ما طفا منه، وهذا قول أصحابنا - رضي الله عنهم-". ( 5/35 کتابالذبائح والصیود ط :سعید) 

پس سمندری مخلوقات میں سے صرف مچھلی حلال ہے، اب اس بات کی تحقیق درکار ہے کہ آیا "مگرا" اور "شارک" مچھلی میں داخل ہیں یا نہیں ؟، اور مچھلی کی انواع واقسام میں مچھلی کے ماہرین کی رائے معتبر ہے کہ وہ مچھلی ہے یا نہیں? اہلِ لسان اورا ہلِ لغت کے بعد آخری رائے ماہرین ہی دے سکتے ہیں ۔

اور مچھلی کے بارے میں مہارت ساحلِ سمندر پر رہنے والوں کو ہوتی ہے جن کے اکثر اوقات اسی میں گزرتے ہیں۔وہ ماہر ہوتے ہیں لہذا ان کی رائے اور عرف معتبر ہوگا جو علماء اس بارے میں واقف ہیں انہیں اہلِ لسان اور پھر اہلِ عرف کی طرف رجوع کرنا ہوگا ۔

لہذا    “شارک ” جس کو عامی زبان میں ” مگرا” کہتے ہیں اور عربی زبان میں اس کو قرش “اور ” کوسج ” کہا جاتا ہے ۔اہلِ لغت اور اہلِ لسان نےا س ( شارک  / مگرا ) کو مچھلی کی قسم میں سے شمار نہیں کیا۔

تفسیر روح المعانی میں ہے :
"وهو في الأصل تصغير قرش بفتح القاف اسم لدابة في البحر أقوى دوابه تأكل ولا تؤكل وتعلو ولا تعلى، وبذلك أجاب ابن عباس معاوية لما سأله: لم سميت قريش قريشاً؟ وتلك الدابة تسمى قرشاً كما هو المذكور في كلام الحبر".  ( 15/471 سورۃ قریش ط: دارالکتب العلمیۃ ) 

تفسير الثعلبي = الكشف والبيان عن تفسير القرآن :
"وسأل معاوية عبد الله بن عباس: لم سمّيت قريش قريشاً؟ فقال: لدابّة في البحر يقال لها: القرش، تأكل ولا تؤكل، وتعلو ولا تعلى. قال: وهل يعرف العرب ذلك في أشعارهم؟ قال: نعم:

وقريش هي التي تسكن البحر بها ... سميت قريش قريشاً. سلطت بالعلو في لجّة البحر ... على ساير البحور جيوشاً. تأكل الغثّ والسمين ولا تترك فيه ... لذي جناحين ريشاً. هكذا في البلاد حي قريش ... يأكلون البلاد أكلاً كميشاً. ولهم آخر الزمان نبيّ ... يكثر القتل فيهم والخموشا. يملأ الأرض خيله ورجالاً ... يحسرون المطيّ حسراً كشيشاً". (10/ 301)

تفسير الرازي = مفاتيح الغيب أو التفسير الكبير :
"أنه تصغير القرش وهو دابة عظيمة في البحر تعبث بالسفن، ولا تنطلق إلا بالنار". (32/ 296)

لسان العرب :
"والقِرْشُ: دَابَّةٌ تَكُونُ فِي الْبَحْرِ المِلْح؛ عَنْ كُرَاعٍ. وقُرَيشٌ: دابةٌ فِي الْبَحْرِ لَا تدَع دَابَّةً إِلا أَكلتها فَجَمِيعُ الدواب تخافُها". (6/ 335)

القاموس المحيط :
"القرش، وهو دابة بحرية تخافها دواب البحر كلها". (ص: 602)

تاج العروس :

"سميت بمصغر القرش، وهي دابة بحرية تخافها دواب البحر كلها، وقيل: إنها سيدة الدواب، إذا دنت وقفت الدواب، وإذا مشت مشت".(17/ 324)

الرائد میں ہے :

" القرش :ج : قروش  1۔ الغرش، 2۔ حیوان بحری یعرق “کلب البحر ” یقطع بأسنانه یخافه الإنسان والسمک".  ( ج :2 ص:1161 ) 

القاموس العصری انگلش عربی ڈکشنری میں ہے:

"shark.قرش _____ كلب البحر".(مؤلف الیاس الظنون، ص: 348، ط: مطبعۃ المصریہ)

مجموعہ فتاویٰ مولانا عبدالحیٰ الکھنوی ؒ میں ہے :

اسی طرح ” کوسج ” اور قرش بھی مچھلیاں نہیں ۔ کیوں کہ یہ امام شافعیؒ کے نزدیک مختلف فیہ ہیں، حال آں کہ وہ تمام بحری جانوروں کے کھانے کو جائز لکھتے ہیں ۔پھر وہ ہمارے نزدیک کس طرح جائز ہوسکتے ہیں؟ اورا س لیے کہ ان میں مچھلیوں کی مندرجہ بالا علامتوں میں سے کوئی علامت نہیں پائی جاتی ۔مفتی فصیح الدین اپنے رسالہ ” احکام الحیوان“ میں لکھتے ہیں کہ ” قرش“ ایک بڑ اجانور ہے اس کو ”سیدالدواب“ کہتے ہیں ۔اورقریش لقب اسی سے ماخوذ ہے ۔ا ورسواحل بلاد مغرب میں اس کو ”اثرار موری“ کہتے ہیں ۔وہ امام صاحب کے نزدیک حرام ہے اور ائمہ ثلاث کے نزدیک حلال ۔ اور محمودشاہ ؒ اپنے فتاویٰ میں لکھتے ہیں ۔” السمک ماله شق وشوک “   مچھلی وہ ہےجس  کی دم کے دو ٹکڑے ہوں، اور جس میں کانٹے ہوں اوراسی میں ہے ۔

”والسمک ماله فلوس وما یبض في الماء وماله شقاق و یکون مولده ومعایشه في الماء ولیس له لسان“.  ”اصلاً مچھلی وہ ہے جس کے سفتے ہوں اور جو پانی میں سفید دکھائی دے اور جس کی دم کے دو ٹکڑوں ہوں۔اور اس کی پیدائش اور زندگی پانی میں ہو۔اور جس کی زبان نہ ہو“۔ اس سے معلوم ہوا کہ مچھلی کی سب سے مشہور علامت سفتے ہیں ۔۔۔  قرش اور کوسج کے اوپر سفتے نہیں ہوتے اور ان کی دم پھٹی نہیں ہوتی اور ان میں کانٹے نہیں ہوتے ۔اور انسان کے جسم کو تیز تلوار کی طرح کاٹ دیتے ہیں“ ۔ ( مجموعہ فتاویٰ ۔22/229 ط : سعید کراچی ) 

شارک اور مگرا کے حرام ہونے کی ایک مستقل وجہ ” مگرا “  کا ” درندہ “ ہونا بھی ہے؛ اس لیے کہ درندہ جانور حرام ہوتے ہیں ۔

الرائد میں ہے :

" القرش :ج : قروش  1. الغرش، 2. حیوان بحری یعرق ”کلب البحر“ یقطع بأسنانه یخافه الإنسان والسمک".  ( ج :2 ص:1161 ) 

ابو داؤد شریف میں ہے :

"عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الخُشَنِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَكْلِ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السَّبُعِ". (2/172 ط : رحمانیہ ۔لاہور ) 

فتاوی شامی میں ہے :

"(ولا يحل) (ذو ناب يصيد بنابه) فخرج نحو البعير (أو مخلب يصيد بمخلبه) أي ظفره فخرج نحو الحمامة (من سبع) بيان لذي ناب. والسبع: كل مختطف منتهب جارح قاتل عادةً.

(قوله: ولا يحل ذو ناب إلخ) كان الأنسب ذكره هذه المسائل في كتاب الصيد؛ لأنها منه إلا الفرس والبغل والحمار أتقاني، والدليل عليه «أنه صلى الله عليه وسلم نهى عن أكل كل ذي ناب من السباع، وكل ذي مخلب من الطير». رواه مسلم وأبو داود وجماعة. والسر فيه أن طبيعة هذه الأشياء مذمومة شرعاً فيخشى أن يتولد من لحمها شيء من طباعها فيحرم إكراماً لبني آدم، كما أنه يحل ما أحل إكراماً له ط عن الحموي. وفي الكفاية: والمؤثر في الحرمة الإيذاء وهو طوراً يكون بالناب وتارةً يكون بالمخلب أو الخبث، وهو قد يكون خلقةً كما في الحشرات والهوام، وقد يكون بعارض كما في الجلالة".  (کتاب الذبائح (6/304) ط :سعید کراچی ) 

"مگرا" اور"شارک" سے متعلق ہماری اس تحقیق پر یہ اشکال ہوسکتا ہے کہ علامہ دمیری رحمہ اللہ نے "حیات الحیوان" میں شارک ( مگرا ) کو مچھلی کی قسم قراردے کر حلال کہا ہے وہ فرماتے ہیں : 

”وإطلاق الجهور، ونص الإمام الشافعي والقرآن العزیز یدل علی جواز أکل القرش؛ لأنه من السمک ومما لایعش إلا في الماء“.( حیات الحیوان، 2/208، ط: مصطفی البابی، مصر) 

اس کا جواب یہ ہے کہ "حیات الحیوان" کے مؤلف علامہ کمال الدین موسی الدمیری، شافعی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں، اور امام شافعی رحمہ اللہ کے بارے میں خود علامہ دمیری رحمہ اللہ نے  "حیات الحیوان " میں ہی یہ تصریح کی ہے کہ امام شافعی  رحمہ اللہ تعالیٰ  تمام سمندری مخلوقات پر "سمک (مچھلی)" کا اطلاق فرماتے ہیں ، علامہ دمیری رحمہ اللہ نے بھی اسی اعتبار سے اس کو مچھلی کی قسم قرار دے کر حلال کہا ہے۔

"حیاۃ الحیوان" میں ہے:

"(فرع) قد اختلف في إطلاق اسم السمك علي ما سوى الحوت من هذه الحيوانات، والذي نص عليه الشافعي  في "الأم" و "المختصر": أنه يطلق على الجميع، وهو الصحيح في الروضة".(1/570،ط: مصطفی البابی، مصر) 

لہذا مذکورہ قول سے  احناف پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا،  حاصل یہ ہوا کہ  "شارک / مگرا "  کا کھانا ناجائز اور مکروہِ تحریمی ہے۔

یہ حکم"مگرا" کا ہے، جسے انگریزی میں "شارک" اور عربی میں "قرش" کہتے ہیں، اس کے علاوہ  اس سے الگ ایک سمندری مچھلی بھی ہے  جسے " مگرا مچھلی" کہتے ہیں ، یہ دونوں الگ الگ ہیں، مگرا کھانا ناجائز ہے، اور مگرا مچھلی حلال ہے، ماہرین اور مچھیرے ان دونوں کا فرق پہچانتے ہیں، ایک ظاہری فرق یہ ہوتا ہے کہ "مگرا" کا رنگ مکمل طور پر بھینس کی طرح یا اس کی طرف مائل ہوتا ہے، جب کہ مگرا  مچھلی کا رنگ بھی ایسا ہوتا ہے، لیکن اس کے پیٹ کی طرف والا حصہ سفید رنگ کا ہوتا ہے، اور دونوں کے کان کے حصے میں کچھ فرق ہوتا ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201886

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں