بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مکروہ تحریمی کام سے نماز کا حکم/ نماز میں چادر اوڑھنا/ سلام کی جگہ ہیلو بولنا


سوال

1 ۔کیا نماز میں مکروہ تحریمی کام کرنے سے نماز کا اعادہ لازم ہے جیسے نماز میں پائنچہ  ٹخنوں سے نیچے لٹکا کر نماز پڑھنا؟

2 ۔ کیا نماز میں کندھے سے کپڑا لٹکا کر نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے جیسے بعض لوگ کندھے پر رومال ڈال کر نماز پڑھتے ہیں اور رکوع میں جانے پر وہ رومال لٹکتا ہے؟

3۔ کیا ہیلو(HELLO) بول کر مخاطب کرنا گناہ ہے کہ غیر اقوام کی مشابہت ہے؟ اگر نہیں تو کیا کفار کی مشابہت گناہ نہیں؟

جواب

 1:واضح رہے کہ مکروہ تحریمی افعال دو قسم کے ہیں۔ اول وہ جن کا تعلق  داخلِ صلاۃ کے  ساتھ  ہے،  دوم  وہ  جن کا تعلق  خارجِ  صلاۃ کے ساتھ ہے، جن مکروہِ تحریمی افعال کا تعلق داخلِ صلاۃ کے ساتھ ہے،  نماز میں ان میں سے کسی فعل کے کرنے سے نماز کا اعادہ واجب ہوتا ہے، جب کہ وہ مکروہِ تحریمی افعال جن کا تعلق داخلِ صلاۃ کے ساتھ نہیں ہے،  ان کے کرنے سے نماز  کی صحت  پر اثر نہیں پڑتا،  اور اس سے نماز کا اعادہ بھی لازم نہیں ہوتا ، تاہم  اُن افعال  کے بذاتِ  خود مکروہِ  تحریمی ہونے کی وجہ سے،  ان سے اجتناب لازم ہے۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں  نماز  میں پائنچا ٹخنوں سے نیچے لٹکا کر نماز پڑھنے کی وجہ سےنماز کا اعادہ  نہیں ہے۔ باقی شلوار ٹخنوں سے نیچے لٹکاکر رکھنا ناجائز اور کبیرہ گناہ ہے ،چاہے حالتِ نماز ہو یا   نماز کے علاوہ  ،بہر صورت شلوار ٹخنوں سے نیچے رکھنا ناجائزاور کبیرہ گناہ  ہے، حدیث میں  اس پر سخت وعید وارد ہے ۔

و في صحیح البخاري لمحمد بن اسماعیل البخاري:

"حدثنا آدم، حدثنا شعبة، حدثنا سعيد بن أبي سعيد المقبري، عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «ما أسفل من الكعبين من الإزار ففي النار»."

(کتاب اللباس ،باب ما أسفل من الكعبين فهو في النار،ج:۷،ص:۱۴۱،رقم:۵۷۸۷،ط: دار طوق النجاة)

جواب 2:اگرنمازمیں  کسی نے چادر یا رومال   وغیرہ   سریا  کندھوں پر ڈال کر اس کے دونوں کنارے لٹکاکر چھوڑے تو نماز  مکروہ ہوگی ۔البتہ اگر ایک کنارہ  کندھا پر ڈالا یا دونوں کناروں کو آپس میں باندھ دیا  تو نماز میں کوئی نقص  نہیں آئےگا۔

و في الدر المختار للحصکفي:

"(و كره) ... (سدل) تحريما للنهي (ثوبه) أي إرساله بلا لبس معتاد ... الخ"

وفي ردّ المحتار لابن عابدین:

"و قال في البحر: وفسره الكرخي بأن يجعل ثوبه على رأسه أو على كتفيه ويرسل أطرافه من جانبه إذا لم يكن عليه سراويل اهـ فكراهته لاحتمال كشف العورة، وإن كان مع السراويل فكراهته للتشبه بأهل الكتاب، فهو مكروه مطلقا."

(کتاب الصلاۃ ،باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا ،ج:۱،ص:۶۳۹،ط:سعید)

جواب 3:واضح رہے کہ لفظ ’’ہیلو ‘‘(HELLO) کے معنیٰ کسی کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانا ہے ،عام فہم زبان میں اس کے معنی’’ سنو‘‘ ہوتے ہیں ،یہ انگریزی زبان کا لفظ ہے ،یہ لفظ  صرف کفار کے ساتھ مخصوص نہیں ،بلکہ مسلم اقوام میں  بھی ا س کا استعمال بکثرت ہوتا ہے ،جس کی وجہ سے یہ لفظ کفا ر کی خصوصیت  نہیں ہے اور نہ ہی  کہنے والے کا مقصد  کفار کے ساتھ تشبہ کا ہوتا ہے ،ا س لیے اِس لفظ کا استعما ل گناہ نہیں ہے، تاہم  ملاقات کے وقت سلام کے الفاظ چھوڑ کر یہ لفظ استعمال کرنا خلاف ِ سنت ہے ،اس لیے کہ سنت یہ ہے کہ کلام سے  پہلے سلام کیاجائے ، ہیلو  سلام  میں داخل  نہیں ہے ،اس لیے اِس لفظ کے بجائے  "السلام علیکم   ورحمۃ اللہ و برکاتہ" کو فروغ دے کرسنت سلام    پر عمل کرنا چاہیے اور ہیلو کے لفظ کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے ۔

لما في ’’ جامع الترمذي ‘‘ :

"عن جابر بن عبد اللہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ’’ السلام قبل الکلام.‘‘

(۲/۹۹ ، أبواب الاستیذان والاٰداب ، باب السلام قبل الکلام)

وفي الدر المختار للحصكفي:

"فإن التشبه بهم لايكره في كل شيء، بل في المذموم وفيما يقصد به التشبه، كما في البحر."

وفي رد المحتار لابن عابدين:

"(قوله لأن التشبه بهم لايكره في كل شيء) فإنا نأكل ونشرب كما يفعلون بحر عن شرح الجامع الصغير لقاضي خان، ويؤيده ما في الذخيرة قبيل كتاب التحري. قال هشام: رأيت على أبي يوسف نعلين مخصوفين بمسامير، فقلت: أترى بهذا الحديد بأسا؟ قال لا قلت: سفيان وثور بن يزيد كرها ذلك لأن فيه تشبها بالرهبان؛ فقال «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يلبس النعال التي لها شعر» وإنها من لباس الرهبان. فقد أشار إلى أن صورة المشابهة فيما تعلق به صلاح العباد لا يضر، فإن الأرض مما لا يمكن قطع المسافة البعيدة فيها إلا بهذا النوع. اهـ"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200382

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں