بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 رمضان 1445ھ 19 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مکروہ اور واجب کی تعریف، ایزی پیسہ کے ذریعہ رقم منتقل کرنے کا حکم


سوال

 1- مکروہ اور واجب کسے کہتے ہیں؟

2-  ایزی پیسہ  کے ذریعہ  رقم منتقل کرتے ہیں اور دکان دار زیادہ  پیسہ لیتے ہیں,  تو کیا یہ سود ہے یا نہیں?

جواب

            1۔مکروہ اور واجب شرعی اصطلاحات ہیں ، "مکروہ" ناپسندیدہ کو کہتے ہیں، اورفقہاء نے اس کی دوقسمیں لکھی ہیں: مکروہِ تحریمی : "تحریمی" کا مطلب جو حرام سے قریب ہو۔ یعنی  "مکروہِ تحریمی": شرعاً وہ ناپسندیدہ امر ہے جو حرام سے قریب ہو، اور اس کا کرنے والا عتاب (اللہ اور اس کے رسول کے غصہ وناراضی) کا مستحق ہو۔

مکروہِ تنزیہی :" مکروہِ تنزیہی": وہ ہے جو حلال سے قریب ہو۔

"واجب"وہ حکم کہلاتا ہے جو  ظنی دلیل سے ثابت شدہ ہو، نیز فرض کا منکر کافر ہوجاتا ہے، واجب کے انکار پر کفر کا حکم نہیں لگتا، البتہ اس کا ترک کرنے والا فاسق کہلاتاہے۔

2۔  اگر کوئی شخص دکان یا فرنچائز سے ایزی پیسہ کے ذریعے اپنی رقم دوسرے شہر منتقل کرے تو کسٹمر کے لیے رقم منتقل کرنے کی اجازت ہوگی، بشرطیکہ جتنی رقم منتقل کرنی ہو وہ مکمل منتقل ہو۔  اور خدمات مہیا کرنے کے عوض دکان دار جداگانہ طور پر مناسب اجرت وصول کرلے۔

البحرالرائق میں ہے :

"والمكروه في هذا الباب نوعان أحدهما ما كره تحريما وهو المحمل عند إطلاقهم الكراهة كما ذكره في فتح القدير من كتاب الزكاة وذكر أنه في رتبة الواجب لا يثبت إلا بما يثبت به الواجب يعني بالنهي الظني الثبوت وأن الواجب يثبت بالأمر الظني الثبوت ثانيهما المكروه تنزيها ومرجعه إلى ما تركه أولى وكثيرا ما يطلقونه كما ذكره العلامة الحلبي في مسألة مسح العرق فحينئذ إذا ذكروا مكروها فلا بد من النظر في دليله فإن كان نهيا ظنيا يحكم بكراهة التحريم إلا لصارف للنهي عن التحريم إلى الندب فإن لم يكن الدليل نهيا بل كان مفيدا للترك الغير الجازم فهي تنزيهية". (4/106)

وفیہ ایضاً:

"أن الفرض ما ثبت بدليل قطعي لا شبهة فيه، قال فخر الإسلام في أصوله: الحكم إما أن يكون ثابتاً بدليل مقطوع به أو لا، والأول هو الفرض، والثاني إما أن يستحق تاركه العقاب أو لا، والأول هو الواجب إلخ ثم قال : وأما الفرض فحكمه اللزوم علماً بالعقل وتصديقاً بالقلب، وهو الإسلام، وعملاً بالبدن، وهو من أركان الشرائع، ويكفر جاحده، ويفسق تاركه بلا عذر، وأما حكم الوجوب فلزومه عملاً بمنزلة الفرض لا علماً على اليقين؛ لما في دليله من الشبهة حتى لايكفر جاحده، ويفسق تاركه، وهكذا في غير ما كتاب من كتب الأصول كالمغني والمنتخب والتنقيح والتلويح والتحرير والمنار وغيرها". (1/49)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200970

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں