بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

امامت کی تنخواہ کا معیار


سوال

مسجد کے امام کی تنخواہ کس بنیاد پر طے کی جائے؟ یعنی ان کی صلاحیت اور علمی خدمات کو دیکھ کر یامسجد فنڈ کو دیکھ کر یا عرف کی بنیاد پر ؟۔ نیز اسی طرح مسجد کے خادم مؤذن اور امام کی تنخواہوں میں اضافہ کس شرح سے کیا جائے اور اس میں معیار کسےبنایا جائے؟

جواب

معاشرے میں مساجد اور ائمہ دونوں کا کردار نہایت اہم رہاہے، مساجد کے ذریعہ معاشرے کو صحیح رخ پر ڈھالنے کی  ذمہ داری ائمہ نے سرانجام دی ہے۔لہذا مساجد اور ائمہ مساجد دونوں مسلمانوں کی اہم دینی ضروریات میں سے ہیں۔مساجد میں باصلاحیت افراد کاتقرر اور ان کی صلاحیتوں،معاشی ضروریات اور ضروریات زندگی کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤکو مدنظر رکھ کر ان کے لیے معقول وظیفہ مقرر کرنا مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ائمہ مساجد، موذنین اور خدام کے وظائف میں وقتافوقتاًمہنگائی کی شرح اور ان کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے مناسب شرح کے ساتھ اضافہ بھی لازمی ہے۔

مساجد سے منسلک افراد کے وظائف مقرر کرتے ہوئے ان وظائف کو محض ایک اجیر کی اجرت کے تناظر میں نہ دیکھا جائے بلکہ یہ بنیاد سامنے رکھی جائے کہ یہ افراد معاشرے کی ایک اہم دینی  ضرورت کو پوراکررہے ہیں ،موسم  کے تفاوت اور حالات کی تفریق سے قطع نظر ہمہ وقت اپنی ذمہ داری کو نبھانے کی بھرپور سعی کرتے ہیں ،لہذا ان سے متعلق یہ جذبہ بھی سامنے رکھاجائے،نیز  ان افراد کے  معقول وظائف مقرر کرنا اور ان میں اضافہ کرنا  یہ اشاعت دین میں حصہ ڈالنے کے مترادف ہے۔

اس سلسلہ میں مسجد کے فنڈ کی بات زیادہ اہمیت کی حامل نہیں ، اس لیے کہ مساجد عموماًعوام اور دینی جذبہ رکھنے والے افراد ہی کے تعاون سے چلتی ہیں ، ان کے لیے حکومتوں کی جانب سے کوئی فنڈ مختص نہیں ہوتا،بلکہ موقع محل کی مناسبت سے عوام مساجد کے چندہ میں بھرپور حصہ لیتے ہیں، مساجدسے متعلقہ ضروریات کی تکمیل کو اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں،لہذا اگر کہیں مسجد کے فنڈ کامسئلہ ہوبھی تو عوام کے سامنے مناسب انداز میں مسجد کی ضروریات رکھی جائیں تو یہ مسئلہ بسہولت ختم ہوجاتاہے۔

حاصل یہ ہے کہ مساجد کے ائمہ ،مؤذنین اور خدام کے وظائف  ان کی صلاحیتوں ، معاشی ضروریات اور مہنگائی کی شرح کو سامنے رکھتے ہوئے  طے کرنے چاہئیں اور ان ہی امور کو مدنظر رکھ کر وقتاً فوقتاً ان وظائف میں معقول اضافہ بھی کرنا چاہیے ۔

اسی نوعیت کے ایک سوال کے جواب میں مفتی عبدالرحیم لاجپوری رحمہ اللہ فتاوی رحیمیہ میں لکھتے ہیں :

امامت کی تنخواہ اور اس کا معیار:

(الجواب)اسلام میں منصب امامت کی بڑی اہمیت ہے، یہ ایک باعزت باوقار اور باعظمت اہم دینی شعبہ ہے ، یہ مصلّٰی رسول اﷲﷺکا مصلّٰی ہے ، امام نائب رسول ہوتا ہے اور امام اﷲ رب العزت اور مقتدیوں کے درمیان قاصد اور ایلچی ہوتاہے ،اس لئے جو سب سے بہتر ہو اسے امام بنانا چاہئے ، حدیث میں ہے : اگر تمہیں یہ پسند ہے کہ تمہاری نماز درجہ مقبولیت کو پہنچے تو تم میں جو بہتر اور نیک ہو وہ تمہاری امامت کر ے کہ وہ تمہارے اور تمہارے پروردگار کے درمیان قاصد ہے:"ان سرکم ان تقبل صلوتکم فلیؤ مکم علماء کم فانھم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم، رواہ الطبرانی وفی روایۃ الحاکم فلیؤ مکم خیارکم وسکت عنہ "(شرح نقایہ ۱/۸۶ والاولی بالا مامۃ الخ )

دوسری حدیث میں ہے کہ تم میں جو سب سے بہتر ہو ا س کو امام بناؤ کیونکہ وہ تمہارے اور تمہارے پروردگار کے درمیان ایلچی ہے (حوالۂ بالا)

فقہ کی مشہور کتاب نور الا یضاح میں ہے :

"فالا علم احق بالا مامۃ ثم الا قرأ ثم الاورع ثم الا سن ثم الا حسن خلقاً ثم الا حسن وجھا ثم للاشراف نسباًثم الا حسن صوتا ثم الا نظف ثوباً "۔(۸۳،۸۴ باب الامامۃ)

 امامت کا زیادہ حق دار وہ ہے جو دین کے امور کا زیادہ جاننے والا ہو (خصوصاً نماز سے متعلق مسائل سے سب سے زیادہ واقف ہو ) پھر وہ شخص جو تجوید سے پڑھنے میں زیادہ ماہر ہو، پھر جو زیادہ متقی اور پرہیز گار ہو ، پھر وہ جو عمر میں بڑا ہو ، پھر وہ جو اچھے اخلاق والا ہو ، پھر وہ جو خوبصورت اورباوجاہت ہو ، پھر وہ جونسباً زیادہ شریف ہو پھر وہ جس کی آواز اچھی ہو پھر وہ جو زیادہ پاکیزہ کپڑے پہنتا ہو۔۔۔فی زماننا یہ ذمہ داری متولیان مساجد اور محلہ وبستی کے بااثر لوگوں کی ہے ، ان کو اس اہم مسئلہ پر توجہ دینا بہت ضروری ہے ،ائمہ مساجد کے ساتھ اعزاز و احترام کا معاملہ کریں ، ان کو اپنا مذہبی پیشوا اور سردار سمجھیں ، ان کو دیگر ملازمین اور نوکروں کی طرح سمجھنا منصب امامت کی سخت توہین ہے ، یہ بہت ہی اہم دینی منصب ہے ، پیشہ ورملازمتوں کی طرح کوئی ملازمت نہیں ہے ، جانبین سے اس عظیم منصب کے احترام، وقار، عزت اور عظمت کی حفاظت ضروری ہے۔۔۔امام مسجد اگر حقیقتاًضرورت مند اور معقول مشاہرہ کے بغیر اس کا گذر بسر مشکل ہورہا ہو تو مناسب انداز سے متولیان مسجد اور محلہ کے با اثر لوگوں کے سامنے اپنا مطالبہ بھی پیش کرسکتا ہے اور ذمہ داران مساجد اور بااثر لوگوں پر ہمدردی اور شفقت کے ساتھ اس طرف توجہ دینا بھی ضروری ہے ، اس صورت میں اماموں کو ایسا طریقہ اختیار کرنا جس سے منصب امامت کی توہین لازم آتی ہو ہرگز جائز نہ ہوگا، امام منصب امامت کے وقار عظمت اور قدرو قیمت کا محافظ اور امین ہے، ایسا طریقہ جس سے منصب امامت کی تذلیل تنقیص لازم آتی ہو ہر گز اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی .....الخ ۔

فقط واﷲ اعلم بالصواب ۔احقر الا نام سید عبدالرحیم لا جپوری ثم راندیری غفرلہ‘ ۱ شوال المکرم۱۴۱۵؁ھ۔(فتاوی رحیمیہ 9/292دارالاشاعت)"

نیز ایک اور سوال کے جواب میں لکھتے ہیں :

امام کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور اس کی تنخواہ کتنی ہونی چاہئے ؟

(الجواب)اقول وباﷲ التوفیق۔

حدیث شریف میں ہے :اعطوا الا جیر قبل ان یجف عرقہ (ابن ماجہ ،مشکوٰۃ شریف ص: ۲۵۸ ،باب الاجارۃ )

یعنی مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو۔آنحضرتﷺنے فرمایا قیامت کے روز جن تین آدمیوں کے خلاف میں مدعی ہوں گا،ا ن میں سے ایک ’’رجل استاجراجیراً فاستوفی منہ ولم یعطہ اجرہ‘‘ وہ شخص ہے جو کسی کو مزدوررکھے اور اس سے پور اکام لے لے مگر مزدوری پوری نہ دے (بخاری شریف ، بحوالہ مشکوٰۃ شریف ص ۲۵۸ ایضاً)

مزدوری پوری نہ دینے کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں کہ اس کی مزدوری مار لے اور پوری نہ دے بلکہ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ جتنی اجرت اس کا م کی ملنی چاہئے اتنی نہ دے اور اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھائے کہ کم سے کم اجرت پر کام لے لے۔فقہاء کرام رحمہم اﷲ نے تصرح کی ہے ۔" ویعطی بقدر الحاجۃ والفقہ والفضل ان قصر کان اﷲ علیہ حسیباً"۔ یعنی متولی اور مدرسہ کے مہتمم کو لازم ہے کہ خادمان مساجد و مدارس کو ان کی حاجت کے مطابق اور ان کی علمی قابلیت اور تقویٰ وصلاح کو ملحوظ رکھتے ہوئے وظیفہ و مشاہرہ (تنخواہ) دیتے رہیں ۔ باوجود گنجائش کے کم دینا بری بات ہے ۔ اور متولی و مہتمم خدا کے جواب دہ ہوں گے ۔ فقط  واللہ اعلم بالصواب "۔


فتوی نمبر : 144010200555

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں