بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مچھروں کو مارنے کے لیے بجلی کی مشین اور ریکٹ کا استعمال


سوال

 بجلی کے ریکٹ اور اس طرح مشین سے مچھر مارے جاتے اور اس طرح کی مشین مساجد میں بھی لگی ہوتی ہیں جس میں مکھی اور مچھر اور دیگر حشرات الاض جل کر ہلاک ہوجاتے ہیں ، کیا ان کا استعمال جائز ہے؟

جواب

مچھر اور حشرات الارض چوں کہ موذی جانور ہیں؛ اس لیے ان کو مارنا جائز ہے،  لیکن جب تک ان کو مارنے کا کوئی اور طریقہ موجود ہو ان کو جلانا جائز نہیں ہے۔

آج کل مچھر وغیرہ کو مارنے کے لیے جو جدید آلات دست یاب ہیں ان میں سے بعض تو وہ مشینیں ہیں جن کو دیوار پر نصب کیا جاتا ہے، اور بعض ریکٹ نما ہیں جن کو  ہاتھ میں لے کر گھمایا جاتا ہے، ان میں غور طلب بات یہ  ہے کہ ان مشین میں یہ حشرات  شعاع یا کرنٹ سے مرتے ہیں یا ان سے آگ نکلتی ہے اور اس سے جل کر مرتے ہیں؟   معلوم یہ ہوتا ہے کہ ان آلات میں آگ نہیں نکلتی،  بلکہ ان میں شعاع یا کرنٹ سے یہ حشرات مرجاتے ہیں، بسا اوقات کرنٹ کی  پاور سے جل جاتے ہیں۔

ان آلات میں سے وہ مشین جو  دیوار وغیرہ میں نصب کی جاتی ہے اس کا استعمال جائز ہے،  اگر اس میں  شعاع وغیرہ  سے وہ حشرات مریں  تو کوئی شبہ نہیں ہے، اور  اگر بالفرض  اس میں آکر جل بھی گئے ہوں تب  بھی اس میں مضائقہ نہیں ہے، اس  لیے کہ یہ مشین اپنی حفاظت اور جانوروں  کے شر سے بچاؤ کے لیے نصب کی گئی ہے، اگر اس میں خود سے کوئی جانور گر کر مرجاتا ہے تو  یہ مشین لگانے والے کی طرف سے جلانا نہیں ہوا، اس لیے یہ جائز ہے۔

اور  جہاں تک ریکٹ کا استعمال ہے تو  اگر اس میں آگ سے  جلانا نہ ہوتا ہو تو اس کا استعمال جائز ہوگا، اور آگر آگ سے جلانا پایا جاتا ہو تو   چوں کہ ان جانوروں کے مارنے کے دیگر طریقے  موجود ہیں؛  اس لیے اس صورت میں اس کا استعمال درست نہ ہوگا، لہذا بہتر یہ ہے کہ ریکٹ کا استعمال نہ کیا جائے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (7/ 2672) :

"و يفهم من قوله: أحرقت أمة جواز إحراق تلك القارصة. وفي شرح مسلم للنووي قالوا: هذا محمول على أن شرع ذلك النبي كان فيه جواز قتل النمل والإحراق بالنار، ولذا لم يعتب عليه في أصل القتل والإحراق، بل في الزيادة على نملة واحدة، وأما في شرعنا فلايجوز إحراق الحيوان بالنار إلا بالاقتصاص، وسواء في منع الإحراق بالنار القمل وغيره للحديث المشهور: (لا يعذب بالنار إلا الله تعالى) . وأما قتل النمل فمذهبنا أنه لا يجوز، فإن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن قتل أربع من الدواب، وسيجيء في الفصل الثاني اهـ. ويمكن حمل النهي عن قتل النمل على غير المؤذي منها جمعا بين الأحاديث وقياسا على القمل، فإن أذى النمل قد يكون أشد من القمل. ألا ترى أنه لا يجوز قتل الهر ابتداء بخلاف ما إذا حصل منه الأذى، ويمكن أن يكون الإحراق منسوخا، أو محمولا على ما لا يمكن قتله إلا به ضرورة. (متفق عليه)."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 752):

"يكره إحراق جراد وقمل وعقرب، ولا بأس بإحراق حطب فيها نمل."

الفتاوى الهندية (5/ 361):

"قتل الزنبور والحشرات هل يباح في الشرع ابتداء من غير إيذاء وهل يثاب على قتلهم؟ قال لا يثاب على ذلك وإن لم يوجد منه الإيذاء فالأولى أن لا يتعرض بقتل شيء منه كذا في جواهر الفتاوى."
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 129):

"(قوله: وحرقهم) أراد حرق دورهم وأمتعتهم قاله العيني: والظاهر أن المراد حرق ذاتهم بالمجانيق وإذا جازت محاربتهم بحرقهم فمالهم أولى نهر، وقوله: بالمجانيق أي برمي النار بها عليهم، لكن جواز التحريق والتغريق مقيد كما في شرح السير بما إذا لم يتمكنوا من الظفر بهم بدون ذلك، بلا مشقة عظيمة فإن تمكنوا بدونها فلا يجوز؛ لأن فيه إهلاك أطفالهم ونسائهم ومن عندهم من المسلمين."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004201409

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں