بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

موقوفہ زمین میں رہائش دینا اور زندگی میں تقسیم جائیداد


سوال

1۔ کسی آدمی کو ایک شخص نے ۲۶ چھبیس مرلے کا پلاٹ مسجد کے لیے وقف کیا ۔اور تحریر بھی لکھ کر دے دی ۔مذکورہ شخص نے واقف سے کہا: مجھے رہائش کے لیے جگہ دو؛ تاکہ میں اس کو آباد کر سکو ں ۔ واقف نے زبانی کہا کہ اس چھبیس مرلے میں سے ۱۳ (تیرہ) مرلے میں اپنا مکان بنا لو اور وقف نامہ میں تبدیلی نہیں کی ۔ آیا کہ یہ تیرہ مرلے ملکیت شمار ہوگا کہ نہیں؟

2۔ اگر ایک آدمی نے تیرہ (۱۳) مرلے ایک بیٹے کو دے دیے۔ ان تیرہ (۱۳) مرلے کے علاوہ ۲۴ (چوبیس مرلے ) اور ہیں ۔ان چوبیس مرلے میں ان کو حصہ نہ دے ،کیا شرعی طور پر اس کی اجازت ہے یا نہیں؟ کیا ا س کو مسجد کی خدمت کے عوض دے سکتے ہیں؟ یا ملکیت بنا کر دے سکتے ہیں؟

3۔  ایک آدمی زندہ ہے او راس کے پاس ۲۴ (چوبیس) مرلے زمین ہے ۔ چودہ (۱۴) مرلے شہر میں ہے۔ جب کہ ۱۰ (دس) مرلے شہر کے مضافات میں ہے۔یعنی اس طرح کل ملا کر ۲۴ (چوبیس) مرلے زمین بنتی ہے۔ اب جو ۱۴ (مرلے) شہر میں ہے، اس میں آٹھ (۸) کمرے بنے ہوئے ہیں،  تین کمرے مالک مکان یعنی باپ نے اپنے پیسوں سے بنوائے۔جب کہ پانچ (۵) کمرے  بیٹوں نے اپنی کمائی سے بنوائے،اور نیت تھی کہ اس میں رہائش رکھیں گے۔ جو (۱۰)دس مرلے شہر کے مضافات میں ہے وہ اس آدمی نے اپنے دو بیٹوں کی بیویوں کو ان کے حق مہر میں دے دیے یعنی پانچ مرلے ایک بیٹے  کی بیوی کو اور دوسرے پانچ مرلے دوسرے بیٹے کی بیوی کو ۔اور اس زمین پر ان کی بیویوں کو قبضہ بھی دے دیا۔اور ساتھ یہ بھی کہا کہ جب جائیداد تقسیم ہو گی تو کمی بیشی کی صورت میں ایک دوسرے سے لینے کی حق دار ہوں گے، جو دس مرلے والا پلاٹ ہے اس کی قیمت فی مرلہ اسی ہزار(۸۰،۰۰۰) ہے اور کل قیمت ۸۰۰،۰۰۰ (آٹھ لاکھ) بنتی ہے اور جو ۱۴(چودہ) مرلے والا پلاٹ ہے (جس میں ۸ کمرے بنے ہوئے ہیں) اس کی فی مرلہ قیمت ۳ (تین)لاکھ روپے ہے۔ جو کہ کل بیالیس لاکھ روپے (۴۲۰۰۰۰۰) بنتی ہے۔ اب اس آدمی کے کل ۷ سات بیٹے، ایک (۱ )بیٹی اور ایک (۱) بیوی ہے۔ ان تمام حضرات میں یہ بات طے ہوئی تھی جس کو بھی کم قیمت والی زمین ملے گی وہ بقیہ پیسے دوسروں سے لینے کا حق دار ہو گا۔اور وہ آدمی مذکورہ جائیدا د اپنی زندگی میں ورثاء کے درمیان تقسیم کرنا چاہتا ہے۔جو زمین دو بیٹوں کی بیویوں کو دی گئی ہے وہ شہر کے مضافات میں ہے۔اور اس کی قیمت کم ہونے کی وجہ سے وہ بیویاں لینے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔جب کہ پہلے ان کو اس پر قبضہ دیا جاچکا ہے۔ اب اس کی تقسیم کا کیا طریقہ کار ہوگا ان سب یعنی ۷ بیٹوں ا بیٹی اور ا بیوی کو اس زمین میں سے کتنا کتنا حصہ ملے گا۔یا کتنی کتنی مالیت ملے گی؟

جواب

1۔ صورتِ  مسئولہ میں اگر واقعۃ مذکورہ پلاٹ مسجد کے لیے وقف کردیا تھا تو وقف کرنے کے بعد واقف کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس موقوفہ زمین میں سے کچھ حصہ مذکورہ شخص کی رہائش کے لیے اسے دے، کیوں کہ وقف مکمل ہونے کے بعد موقوفہ زمین کسی کو نہیں دی جاسکتی۔

فتاوی شامی میں ہے:

 فإذا تم ولزم لا يملك ولا يعار ولا يرهن         ( كتاب الوقف ۴/ ۳۵۲ ط: سعيد)

2۔ زندگی میں اولاد کو ہبہ کرنے میں برابری کرنا ضروری ہے ، البتہ اگر اولاد میں میں سے کسی کی خصوصیت مثلاً دینداری وغیرہ کی بناء پر زیادہ دیا جائے تو اس کی شرعاً گنجائش ہے، لہٰذا اگر ایک بیٹے کو اس کے مسجد کی خدمت کرنے کی وجہ سے دوسرے بیٹوں سے زیادہ دیا جائے تو یہ درست ہے، یاد رہے کہ مسجد کی موقوفہ زمین کو کسی بیٹے کے نام کرنا جائز نہیں ہوگا۔

صحيح ابن حبان  (11 / 503)

عن النعمان بن بشير قال: طلبت عمرة بنت رواحة إلى بشير بن سعد أن ينحلني نحلا من ماله، وإنه أبى عليها، ثم بدا له بعد حول أو حولين ان ينحلنيه، فقال لها: الذي سألت لابني كنت منعتك، وقد بدا لي أن أنحله إياه. قالت: لا والله، لا أرضى حتى تأخذ بيده، فتنطلق به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فتشهده قال: فأخذ بيدي، فانطلق بي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقص عليه القصة، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: "هل لك معه ولد غيره؟" قال: نعم قال: "فهل آتيت كل واحد منهم مثل الذي آتيت هذا؟" قال: لا. قال: "فإني لا أشهد على هذا، هذا جور، أشهد على هذا غيري، اعدلوا بين أولادكم في النحل، كما تحبون أن يعدلوا بينكم في البر واللطف"

3۔مذکورہ شخص نے جب اپنی بہو کو بطور مہر اپنی زمین  پر قبضہ دے دیا ہے تو یہ زمینیں ان دونوں بہووں کی ملکیت ہیں، انہیں ان سے واپس لینا شرعا جائز نہیں، شہر کی زمین پر جو پانچ کمرے بیٹوں کے مال سے بنائے گئے ہیں اگر وہ والد کی اجازت سے اپنے لیے بنائے ہیں تو وہ ملبے کی قیمت کا مطالبہ کرسکتے ہیں، اور اگر مشترکہ رہائش کی غرض سے تعمیر کیا ہے تو یہ ان کی جانب سے تبرع ہے، اس رقم کا مطالبہ کرنا جائز نہیں، مذکورہ شخص اپنی جائیداد اولاد میں تقسیم کرنا چاہتا ہے تو مضافات والی زمین کو اس تقسیم میں شمار نہ کیا جائے، البتہ اگر وہ بیٹے جن کی بیویوں کو یہ زمین مہر کے طور پر دی گئی اگر وہ راضی ہوں تو اس کو بھی تقسیم میں شمار کرنا درست ہوگا۔

ومن بنى أو غرس في أرض غيره بغير إذنه أمر بالقلع والرد ) لو قيمة الساحة أكثر كما مر (للمالك أن يضمن له قيمة بناء أو شجر أمر بقلعه ) أي مستحق القلع فتقوم بدونهما

و في الرد: قوله ( بغير إذنه ) فلو بإذنه فالبناء لرب الدار ويرجع عليه بما أنفق جامع الفصولين من أحكام العمارة في ملك الغير( كتاب الغصب ٦/ ۱۹۴ ط: سعيد)

 [مطلب في ضمان الولي المهر]

(قوله وصح ضمان الولي مهرها) أي سواء ولي الزوج أو الزوجة صغيرين كانا أو كبيرين، أما ضمان ولي الكبير منهما فظاهر لأنه كالأجنبي. ثم إن كان بأمره رجع وإلا لا.    (رد المحتار  3 / 140)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 143909201923

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں