بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

موزوں پر مسح کرنے پر اشکال


سوال

کیا یہ فتوی درست ہے؟

"لفظ (الخفين) كامعنی ہے موزہ ،اگرچہ اس زمانے میں چمڑے کےموزے ہوتے تھے اور انہیں کے لیے استعمال ہوتا تھا ،لیکن اس وقت کپڑے کے موزے ہیں جنہیں ہم جورابے وغیرہ کہتےہیں ،موزے نہیں ،اس لیے اس مسئلےکو مزید مبہم مبحث نہ بنائیں، اصل مسئلہ ہے مسح کا جو کہ چمڑے کےموزے پر تو بالاتفاق جائز ہے ،اس میں کوئی اختلاف نہیں، اگر موزہ مکمل طوپر پیر کو احاطہ کیا ہواہے۔

مسئلہ اور اختلاف ہے جورابے پر مسح کرنے میں ، اور اس مسئلہ کچھ علماء نے اجازت دی خبر واحد کوبنیاد بناکر اور کچھ نے مطلق منع فرمایاہے، کیوں کہ کوئی متواتر روایت نہیں اور قرآن کے قطعی نص یعنی (دھونے) پر عمل نہیں ہورہا۔

آپ یہ بتائیں کہ

۱:متواتر احادیث میں خفین کا ذکر وہاں کوئی شرط موجود ہےکہ اس طرح کا موزہ ہوناچاہیئے؟

۲:دوسرا جن شرائط کی بنیاد پر علماء نےجورابوں پر مسح کو ناجائز قرار دیاہے وہ کہاں سے ثابت ہیں ؟کیا ان کا کسی متواتر حدیث میں ذکر ہے؟

۳:تیسری بات خفین پر مسح کرنے میں بھی تو قرآن کےنص پر عمل نہیں ہورہا ،لیکن پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی ہے تو کس حکمت اور ضرورت کے پیش نظر اجازت دی ہے؟ کیا وہی ضرورت اور مسئلہ جورابےپہننے میں پیش نہیں آتے؟

جواب

1 و 2۔ سوتی یا اونی موزوں پر مسح کا ناجائز ہونا اجتہادی مسئلہ ہے، یہ منصوصی مسئلہ نہیں، کیوں کہ موزوں پر مسح کرنے کے لیے "خف" کا لفظ آتا ہے، جس کے معنی چمڑے کے موزے کے ہیں، لہذا مسح چمڑے کے موزے یا اس موزے پر جائز ہوگا جس میں "خف" (چمڑے کے موزے کی خصوصیات) ہوں، فقہاء کرام نے اس کے لیے تین شرائط مستنبط کی ہیں، جو کہ موجودہ دور کے سوتی یا اونی موزوں میں نہیں پائی جاتیں، لہذا ان پر مسح جائز نہیں۔

3۔  موزوں پر مسح کرنے کی حکمت اور ضرورت جہاں جہاں پیش آئے وہاں وہاں موزوں پر مسح کے جواز کا حکم نہیں لگایا جاسکتا، کیوں کہ حکم کا دارو مدار حکمت پر نہیں ہوتا، لہذا موزوں پر مسح کے جواز کے لیے شرائط کا لحاظ کرنا ضروری ہے۔

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل فتوی ملاحظہ کیجیے:

موزوں اور جرابوں پر مسح اور اس کی شرائط

فقط وا للہ اعلم


فتوی نمبر : 144104201077

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں