بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مورٹین اور دیگر مچھر مار دوا کا مسجد میں استعمال


سوال

 کیا مسجد میں  مورٹین  یا آل آؤٹ   یا مچھر  سے نجات  کی دیگر چیزیں استعمال کرسکتے  ہیں ؟

جواب

مذکورہ  اشیاء  اگر بدبو دار  ہیں تو   ان کا استعمال مسجد میں جائز نہیں ہوگا، مسجد  میں ایسے   اسپرے ، کریم یا کوئل کے  استعمال  کی اجازت ہوگی  جس میں بدبو نہ ہو ، اسی  طرح آج کل جو مچھر مار برقی آلات آتے ہیں وہ بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعن جابر رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: («من أكل من هذه الشجرة المنتنة، فلايقربنّ مسجدنا، فإنّ الملائكة تتأذى مما يتأذى منه الإنس»). متفق عليه.

المنتنة) أي: الثوم، ويقاس عليه ‌البصل والفجل، وما له رائحة كريهة كالكراث. قال العلماء: ومن ذلك من به بخر مستحكم وجرح منتن (فلايقربن مسجدنا) قيل: النهي يتعلق بكل المساجد، فالإضافة للملك، أو التقدير: مسجد أهل ملتنا؛ لأن العلة وهي (فإن الملائكة تأذى) وفي نسخة صحيحة: (تتأذى) أريد بهم الحاضرون موضع العبادات عامة توجد في سائر المساجد فيعم الحكم، ويدل هذا التعليل على أنه لا يدخل المسجد وإن كان خاليا من الإنسان لأنه محل ملائكة."

(کتاب الصلاۃ باب المساجد ج نمبر ۲ ص نمبر ۵۹۸،دار الفکر)

فتاوی دار العلوم دیوبند:

"سوال : مٹی کے تیل کا لیمپ مسجد میں  جلانا جائز ہے یا نہیں؟

جواب: علت کراہت کی بدبو ہے، اگر بدبو نہ ہو تو جائز ہے؛ کیوں کہ علت اس میں نجاست نہیں ہے۔" 

( ج نمبر ۱۴ ص نمبر ۲۳۱)

امداد لااحکام:

آج کل لالٹین جرمنی سرسوں کے تیل کے بھی ملتی ہے اگر چراگ نہ ٹھرتا ہو تو اس کو جلایا جائے مٹی کت تیل کی لالٹین مسجد میں جلانا جائز نہیں بوجہ بدبو کے اور دیا سلائی بدبو دار سرخ مسالہ کی وجہ سے ہوتی ہے ۔سیاہ مسالہ کی سلایئی میں بدبو نہیں ہوتی جو آج کل بہر رائج ہے مسجدوں میں اس کا استعمال زیادہ بہتر ہے۔

(ج نمبر ۳ص ۱۸۲)

فتاوی محمودیہ:

۔۔۔ہاں اگر کوئی اور تیل ہے جس میں بدبو نہیں ہے یا مٹی ہی کے تیل کو کسی طرح ایسا صاف کرلیا ہے کہ بدبو نہیں رہی تو مسجد میں جلانا بھی درست ہے۔

(ج نمبر ۱۵ ص نمبر ۲۴۸)

 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200038

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں