بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

موذی جانوروں کومارنے اوران پرکتےچھوڑنےکاحکم!


سوال

نقصان پہچانے والے درندوں مثال کے طور پر خنزیر لومڑ اور گیدڑ وغیرہ کو ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ کیا ایسا کرنا جائز ہوگا۔ نیر یہ بھی واضح فرمائیں کہ ان جانوروں پر کتے چھوڑ دیے جاتے ہیں جو انکو ہلاک کر دیتے ہیں کیا یہ درست ہوگا شرعی طور پر؟

جواب

واضح رہےحدیث شریف میں پانچ جانوروں کو موذی ہونےکی وجہ سےمارنےکا حکم دیا گیا ہے،حدیث نبوی میں اگرچہ پانچ ہی جانوروں کی تحدید ہےلیکن مقصود اسے ہر اس جانور کومارنےکا حکم ہے جو درندہ ہونےکےساتھ موذی ہو،لہذا جوجانور  موذی ہوتے ہیں اور انسانوں کے لیے تکلیف اور نقصان کا باعث بنتے ہیں انہیں مارنے میں کوئی حرج نہیں،لہذا  ان جانوروں پر کتوں کو چھوڑکر مارنا درست ہے ۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن نافع  قال عبد الله  سمعت النبيصلى الله عليه وسلم يقول: "خمس من الدواب  لا جناح علي من قتلهن في قتلهن: الغراب والحدأة والعقرب والفأرة والكلب العقور."

(صحیح مسلم،كتاب الحج،باب مايندب للمحرم وغيره قتله من الدواب في الحل والحرم، ج:1، ص:382، ط:قديمى كتب خانه)


اکمال المعلم شرح صحیح مسلم میں ہے:

"وقيل: بل المراد بتعيين هذه الخمسة التنبيه على ما شابهها في الأذى، وقاسوا سائر السباع على الكلب العقور، وسائر ما يتصدى للافتراس من السباع، وعلى الحدأة والغراب ما في معناهما، وإنما خص لقربهما من الناس، ولو وجد ذلك من الرخم والنسور لكانت مثلها، وكذلك نبه بالفأرة على ما ضرره مثلها وأشذ منها كالوزغ، وكذلك نبه بالعقرب على الزنبور، وبالحية والأفعى على أشباهها من ذوات السموم والمهلكات."

(كتاب الحج،باب مايندب للمحرم وغيره قتله من الدواب في الحل والحرم، ج:4، ص:108، ط:دارالکتب العلمیۃ)

فتاوی شامی ہے:

"(وجاز قتل ما يضر منها ككلب عقور وهرة) تضر (ويذبحها) أي الهرة (ذبحا) ولا يضر بها لأنه لا يفيد، ولا يحرقها وفي المبتغى يكره إحراق جراد وقمل وعقرب، 
(قوله وهرة تضر) كما إذا كانت تأكل الحمام والدجاج زيلعي (قوله ويذبحها) الظاهر أن الكلب مثلها تأمل (قوله يكره إحراق جراد) أي تحريما ومثل القمل البرغوث ومثل العقرب الحية."

(مسائل شتی، ج:6، ص:752، ط:ایچ ایم سعید)

تحفۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی میں ہے:

حدثنا محمدُ بنُ المُثَنّى حدثنا عبدُ الرحمنِ بنُ مَهْدِي عن سُفْيَانَ عن الأعْمَشِ عن أبي يَحْيَى عن مُجَاهِدٍ: "أنّ النبيّ صلى الله عليه وسلم نَهَى عن التّحْرِيشِ بَيْنَ البَهَائِمِ
قوله: (عن التحريش بين البهائم) هو الإغراء وتهييج بعضها على بعض كما يفعل بين الجمال والكباش والديوك وغيرها. ووجه النهي أنه إيلام للحيوانات،

(باب مَا جَاءَ في كَرَاهيَةِ التحريش بين البهائِم، والضرب والوسم في الوجه، ج:9، ص:328، ط:شبكة مشكوة الاسلاميه)

فقط  والله أعلم 


فتوی نمبر : 144110201502

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں