بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

موبائل کی خرید وفروخت کی بعض صورتیں اور ان کا متبادل


سوال

میری ایک موبائل کی دکان ہے؛

1. بعض دفعہ کسٹمراپنا موبا ئل بیچنے آتے ہیں تو میں اس موبائل کو مارکیٹ میں دکھاتا ہوں ، اگر میرے سے کوئی دکان دار خرید رہا ہوتا ہے تو میں کسٹومر کو 500 کم لگاتا ہوں، اگر وہ اپنا موبائل مجھے دینے پر آمادہ ہو جاتا ہے تو میں وہ موبائل  اگلے دکان دار جس سے میں نے بات کی تھی اس کو چیک کرنے کے لیے دے دیتا ہوں پھر جب مجھے دکان دار کہتا ہے: صحیح ہے تو پھر میں کسٹمر کو پیسے دے دیتا ہوں اور بعد میں دکان دار مجھے پیسے دے دیتا ہے، پوچھنا یہ تھا کہ میرے لیے درمیان میں اس طرح پیسے رکھنا درست ہے؟

2.بعض دفعہ کسٹمر ایسا موبائل خریدنے آتا ہے جو میرے پاس موجود نہیں ہوتا ، پھر وہ موبائل میں مارکیٹ سے اس طور پر لاتا ہوں کہ اگر کسٹمرخرید لے گاتو میں پیسے دے دوںگا، ورنہ یہ موبائل واپس دے دوں گا، تو کیا ایسی صورت میں حاصل ہونے والا نفع میرے لیے حلال ہے یا نہیں ؟ دونوں باتوں کا وضاحت کے ساتھ جواب مطلوب ہے!

جواب

جواب سے پہلے  تمہید کے طور پر   دو باتیں  ملاحظہ ہوں:

1۔۔  کسی چیز کو فروخت کرتے وقت  اگر نفسِ عقد میں کوئی ایسی شرط لگائی جائے   جو خرید وفروخت کے عقد کے تقاضوں کے خلاف ہو، اور اس میں خریدار  یا فروخت کرنے والے کا فائدہ ہو تو اس  طرح کی شرط لگانے سےوہ معاملہ فاسد ہوجاتا ہے ،اس کو فسخ کرنا واجب ہوتا ہے۔

2۔۔  کسی بھی چیز کو اپنی ملکیت میں آنے سے پہلے آگے فروخت کرنا جائز نہیں ہے، اسی طرح کسی بھی منقولی چیز کو خریدنے کے بعد اس پر قبضہ کرنے پہلے اسے آگے فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔

اب آپ کے سوالوں کے جواب مندرجہ ذیل ہے:

1۔۔ کسٹمر سے موبائل لے کر آپ دکان داروں کو دکھاتے ہیں اگر وہ لینے پر رضامند ہوں تو پھر آپ سودا کرکے کسٹمر سے موبائل لے لیتے ہیں تو اس میں یہ ملحوظ رہے  کہ ابتدا میں چوں کہ آپ کسٹمر سے موبائل کا باقاعدہ سودا نہیں کرتے،  بلکہ اس سے موبائل صرف دکھانے کے لیے لیتے ہیں تو  آپ کے لیے اس موبائل کو آگے دکان دار کو فروخت کرنا جائز نہیں ہے، اس صورت میں آپ  بیع (بیچنے) کے الفاظ ادا کرنے کی بجائے دکان دار سے بیع کا وعدہ کرلیں  کہ میں یہ موبائل آپ کو اتنے میں فروخت کروں گا، پھر آپ اپنے کسٹمر سے باقاعدہ سودا کرلیں اور اس کے بعد موبائل اپنے قبضہ میں لے کر دکان دار کو فروخت کردیں تو یہ معاملہ جائز ہوگا۔ اب اس صورت میں اگر اس موبائل میں کوئی عیب نکلتا ہے تو آپ اپنے کسٹمر کو واپس کرسکتے ہیں۔یہ باقاعدہ بیع کی صورت ہے، اور اس میں ملنے والا نفع آپ کے لیے لینا جائز ہوگا۔

2۔۔  موبائل جب تک آپ نے دکان دار سے خریدا نہیں ہے تو آپ اپنے کسٹمر سے اس کا سودا نہیں کرسکتے، اس لیے  کہ یہ موبائل اب تک آپ کی ملکیت میں نہیں ہے، اور مالک بننے سے پہلے کسی چیز کو بیچنا جائز نہیں ہے۔ اسی طرح موبائل اگر آپ دکان سے خریدتے ہیں تو اس شرط کے ساتھ خریدنا بھی جائز نہیں کہ اگر یہ فروخت نہیں ہوا تو میں واپس کردوں گا، اس لیےکہ یہ  شرط عقد بیع کے تقاضوں کے خلاف ہے۔

اس کے جواز کی  ایک صورت یہ ہے کہ آپ موبائل دکان دار سے نہ خریدیں،  بلکہ اس کی اجازت سے صرف دکھانے کے لیے لے لیں اور اس سے یہ وعدہ کرلیں کہ اگر میرے کسٹمر نے لے لیا تو میں آپ سے خرید لوں گا، پھر آپ یہ موبائل اپنے کسٹمر کو دکھائیں، اگر وہ لینے پر رضامند ہوجاتا ہے تو آپ اسے ابھی فروخت نہ کریں، بلکہ کسٹمر سے صرف بیع کا وعدہ کرلیں کہ میں یہ آپ کو اتنے میں بیچ دوں گا، اس کے بعد وہ موبائل دکان دار سے خرید لیں اور قبضہ کرنے کے بعد اپنے کسٹمر کو بیچ دیں یعنی سودا پکا کرلیں، اور اس وعدہ بیع کی مد میں آپ کسٹمر سے ایڈوانس رقم بھی لے سکتے ہیں۔

اس معاملہ کے جواز کی دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ  آپ دکان دار سے کمیشن کا معاملہ طے کرلیں ، اس طرح کہ دکان دار سے موبائل لے کر کہیں کہ میں یہ موبائل آپ کو بیچ کر دوں گا اور اس پر اتنا کمیشن لوں گا، اگر وہ رضامند ہوجائے تو آپ کسٹمر سے ڈیل کرکے اسے یہ موبائل فروخت کردیں اور اپنے طے شدہ کمیشن رکھ کر باقی پیسے دکان دار کو ادا کردیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) لا (بيع بشرط) عطف على إلى النيروز يعني الأصل الجامع في فساد العقد بسبب شرط (لا يقتضيه العقد ولا يلائمه وفيه نفع لأحدهما أو) فيه نفع (لمبيع) هو (من أهل الاستحقاق)..." الخ (5/ 84،  کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، مطلب فی البیع بشرط فاسد، ط: سعید)

تبیین  الحقائق  میں ہے :

"قال - رحمه الله - : (لا بيع المنقول) أي لا يجوز بيع المنقول قبل القبض لما روينا ولقوله - عليه الصلاة والسلام - «إذا ابتعت طعاما فلا تبعه حتى تستوفيه» رواه مسلم وأحمد ولأن فيه غرر انفساخ العقد على اعتبار الهلاك قبل القبض؛ لأنه إذا هلك المبيع قبل القبض ينفسخ العقد فيتبين أنه باع ما لا يملك والغرر حرام لما روينا". (4/ 80،  کتاب البیوع، ط: المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو أعطاه الدراهم، وجعل يأخذ منه كل يوم خمسة أمنان ولم يقل في الابتداء اشتريت منك يجوز وهذا حلال وإن كان نيته وقت الدفع الشراء؛ لأنه بمجرد النية لا ينعقد البيع، وإنما ينعقد البيع الآن بالتعاطي والآن المبيع معلوم فينعقد البيع صحيحا. قلت: ووجهه أن ثمن الخبز معلوم فإذا انعقد بيعا بالتعاطي وقت الأخذ مع دفع الثمن قبله، فكذا إذا تأخر دفع الثمن بالأولى". (4/ 516، کتاب البیوع، مطلب البیع بالتعاطی،  ط: سعید) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200016

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں