بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

موبائل فون پر تصاویر بنانے اور سوشل میڈیا پر ان کے استعمال کا حکم


سوال

موجودہ دور میں الیکٹرانک میڈیادن بدن ترقی کررہاہے اور نئی نئی ٹیکنالوجی معرض وجود میں آتی ہے اور اکثروبیشترلوگ استعمال کرتے ہیں جیساکہ پہلے سادہ موبائل تھے اب ٹچ موبائل اینڈرائڈ سسٹم کی صورت میں بہت سے موبائل ہیں جس میں مکمل کمپیوٹر سسٹم موجود ہے اور ڈیجیٹل کیمرے بھی اور ان موبائلزسے ہر چھوٹے بڑے کاسوشل میڈیاتک پہنچناانتہائی آسان ہے اور سماجی روابط میں کافی حد تک آسانیاں ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان موبائلزکے کیمرے بہت عمدہ بنائے گئے ہیں جس سے آجکل ہر شخص ہی تقریبااپنی روزمرہ کی مصروفیات تصویریاویڈیوکے ذریعہ محفوظ کرتاہے ۔جبکہ علمائ کرام کے بارے میں یہ سنا ہے کہ بعض علماء ان تصاویر کو جائز قراردیتے ہیں اور بعض ناجائز۔اب پوچھنا یہ ہے کہ مذکورہ صورت کے حوالے سے ایسے موبائلز کا استعمال کس حدتک جائز ہے اور کس حد تک نہیں اور آیا ایسے موبائلز سے تصاویر بنانا اور وہ تصاویر سوشل میڈیا مثلا۔۔۔فیس بک،واٹس ایپ،ٹوئٹر پر لگانا شرعاکیسا ہے۔ اور تصویر کے بارے میں ان علماء کرام کی کیا رائے ہے اور کیادلائل ہیں جو جوازکے قائل ہیں۔اور ان علماءکی رائے کیا ہے جو عدم جواز کے قائل ہیں؟

جواب

 جدید ٹیکنالوجی کا جائز استعمال جائز ہے اور ناجائز استعمال ناجائز ہے۔رہا موبائل کیمرے سے تصویر بنانا تو جاندار کی تصویر بنانے کا وہی حکم ہےجو عام کیمرے سے تصویر بنانے  کا  ہے یعنی سوائے ضرورت شدیدہ کے ناجائز ہے اور اور فیس بک،ٹوئیٹر ،واٹس اپ وغیرہ پر تصویر لگانا چونکہ کوئی شرعی مجبوری یا دینی ضرورت نہیں اس لیے جو لوگ لگاتے ہیں وہ جاندار کی تصویر کو بلاضرورت شدیدہ اور کسی قابل اعتبار دینی مصلحت کے بغیر استعمال کرتے ہیں اس لیے ناجائز کرتے ہیں۔آپ کا یہ کہنا درست ہے کہ بعض اہل علم ڈیجیٹل کیمرے سے تصویر کے جواز کے قائل ہیں لیکن اہل علم کی بڑی جماعت اسے تصویر کا تسلسسل سمجھنے کی بنا پر ناجائز کہتی ہے۔دونوں جانب کے دلائل کا ذکر تو طوالت کا باعث ہے البتہ ہماری جامعہ کے  ماہنامہ بینات میں چھ اقساط  میں ایک مفصل مضمون اس موضوع پرشائع ہوچکا ہے، اس کا مطالعہ مفید ہوگا۔ مضمون کے  لیے  بینات   جمادی الاولی ۱۴۳۴ھ   سے ذوالقعدہ ۱۴۳۴ھ     تک کے شمارے ملاحظہ فرمائیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143704200029

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں