بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

منہ بولے بیٹے کو اپنی کاسٹ دینا


سوال

منہ بولے بیٹے کو پالنے والا باپ کے طور پر اپنا نام تو نہیں دے سکتا، مگر کیا اپنی کاسٹ دے سکتا ہے?  جیسے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے  اپنی چادر میں لے کر اہلِ بیت کہا تھا، کچھ اس طرح کا تھا نہ، یعنی وہ بھی سید ہو گئے.

جواب

واضح رہے کہ انسان کے لیے جائز نہیں کہ اپنے قبیلے / خاندان کے علاوہ کسی اور خاندان یا نسل کی طرف خود کو منسوب کرے،  اس لیے کہ ایسا کرنا بہت بڑا گناہ ہے اور حدیث میں اس کی سخت ممانعت آئی ہے۔

"حدثنا أبو معمر حدثنا عبدالوارث عن الحسين عن عبدالله بن بريدة قال: حدثني يحيى بن يعمر أن أبا الأسود الديلي حدثه عن أبي ذر رضي الله عنه أنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم أنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: ليس من رجل ادعى لغير أبيه وهو يعلمه إلا كفر، ومن ادعى قومًا ليس له فيهم فليتبوأ مقعده من النار". (صحيح البخاري 4/180)

ترجمہ: ۔۔۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص اپنے آپ کو اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے شخص کی طرف منسوب کرے اور وہ اس بات کو جانتا بھی ہو تو وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرتا ہے، اور جو شخص کسی ایک قوم میں سے ہونے کا دعویٰ کرے جس میں اس کا کوئی قرابت دار نہ ہو تو اس کا ٹھکانہ جہنم میں ہے۔

قال ابن حجر رحمه الله:

"وفي الحديث تحريم الانتفاء من النسب المعروف، والادعاء إلى غيره، وقيد في الحديث بالعلم، ولا بد منه في الحالتين، إثباتاً ونفياً، لأن الإثم إنّما يترتب على العالم بالشيء المتعمد له، انتهى". (فتح الباري: 6/541)

نیز کوئی شخص جانتے بوجھتے اپنی نسبت اپنی قوم یا قبیلے کو چھو ڑکر کسی دوسری قوم کی طرف عموماً اپنے نسب کو  ہیچ سمجھنے اور دوسری اقوام کو صاحبِ فضیلت سمجھنے  کی وجہ سے کرتا ہے، حال آں کہ اسلام نے مطلقاً نسبی امتیاز کو وجہ فضیلت سمجھنے کی تردید  کی ہے۔

چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہے:

{يا أيها الناس إنا خلقناكم من ذكر وأنثى وجعلنا كم شعوباً وقبائل لتعارفوا إن أكرمكم عند الله أتقاكم إن الله عليم خبير} (الحجرات: 13)

ترجمہ: اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے؛  تاکہ ایک دوسرے کو پہچانو۔ اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے۔ بے شک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) سب سے خبردار ہے۔

قرآنِ مجید کی اس آیت سے صاف طور پر واضح ہوگیا کہ عزت وبلندی قوم ونسل کی وجہ سے نہیں، بلکہ تقویٰ و پرہیزگاری کی وجہ سے ہے، لہٰذا اپنا نسب بدلنے سے خوب بچنا چاہیے۔ 

باقی رہی یہ بات کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حضرت علی، فاطمہ اور حسنین رضی اللہ عنہم کو چادر میں لے کر ان کو اہلِ بیت فرمایا تھا تو اس سے مقصد ان کی ذات اور کاسٹ کا بدلنا مقصود نہیں تھا، بلکہ آیتِ مبارکہ {إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرًا} کی فضیلت میں ان کو بھی شامل کرنا تھا، لہذا اس واقعہ سے کاسٹ کے بدلنے پر  استدلال کرنا  درست نہیں۔ اس لیے کہ چادر میں لے کر غیر اہلِ بیت کو اہلِ بیت نہیں بنایا گیا، بلکہ اہلِ بیت (گھر / خاندان والوں) میں وہ لوگ پہلے سے ہی داخل تھے، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ ﷺ کی حقیقی صاحب زادی تھیں، اور ان کے صاحب زادے رسول اللہ ﷺ کے نواسے تھے، اور نواسے بھی آدمی کی اولاد ہی شمار ہوتے ہیں، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کے چچا زاد اور آپ کے خاندان بنو ہاشم ہی سے تھے۔ جہاں تک ’’سید‘‘ کی اصطلاح ہے، یہ بعد میں اہلِ بیت کے ساتھ  مخصوص ہوئی ہے، اور ابتدائی ادوار میں بنو ہاشم کے ان پانچوں خاندانوں کو ’’سید‘‘ کہا جاتا تھا جنہیں زکاۃ دینا جائز نہیں ہے، اس کے بعد عرف میں مزید تخصیص ہوئی اور ’’سید‘‘  کی نسبت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس اولاد کے ساتھ  مخصوص ہوگئی جو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ہو، جب کہ شرعاً خاندانِ بنو ہاشم کے ان پانچوں خاندانوں کو ’’سید‘‘ کہنے میں حرج نہیں ہے۔

موارد الظمآن إلى زوائد ابن حبان ت حسين أسد (7/ 203):
"عن واثلة بن الأسقع قال: سألت عن علي في منزله فقيل لي: ذهب يأتي برسول الله صلى الله عليه وسلم، إذ جاء فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم ودخلت، فجلس رسول الله صلى الله عليه وسلم على الفراش، وأجلس فاطمة عن يمينه، وعليًّا عن يساره، وحسنًا وحسينًا بين يديه وقال: {إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرًا} [الأحزاب: 33] اللهم هؤلاء أهل بيتي".

الكوكب الدري على جامع الترمذي (4/ 236):
"قوله: [اللهم هؤلاء أهل بيتي إلخ] لاشك أن المراد بأهل البيت في الآية إنما هنّ أزواجه المطهرات، يدلّ على ذلك سياق الآيات وسباقها، لكنّ النبي صلى الله عليه وسلم أراد أن يشترك أهل البيت في إطلاق واحد، وهم أهل البيت الذين جالهم بكساء في الفضيلة والتطهير فدعا لهم".

السنة لابن أبي عاصم (2/ 603):
"قال: ودعا رسول الله صلى الله عليه وسلم الحسن والحسين وعليًّا وفاطمة، ومد عليهم ثوبًا ثم قال: «اللّهم هؤلاء أهل بيتي وخاصتي فأذهب عنهم الرجس، وطهرهم تطهيرًا»". فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144106200464

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں