بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

منگنی اور بارات کی دعوت میں شرکت کاحکم


سوال

آج کل جو منگنی اور بارات وغیرہ  کی تقریبات ہوتی ہیں، اگر ان میں باپردہ ماحول ہو اور ناچ گانا اور موسیقی جیسی خرافات نہ ہوں تو ان میں شرکت کرنا کیسا ہے؟

جواب

مہمانی نوازی اور اکرامِ مسلم کی غرض سے دعوت فی نفسہ جائز، بلکہ مستحسن چیز ہے، احادیثِ مبارکہ میں اس کی ترغیب آئی ہے، تاہم شادی بیاہ کے موقع پرولیمہ کی دعوت کے علاوہ باقی ضیافتوں کا سنت ہونا منقول نہیں ہے، اس لیے ولیمہ کی دعوت تو سنت ہے، باقی اس کے علاوہ رخصتی کی دعوت، منگنی کی دعوت کو اگر لازم نہ سمجھا جائے اور ان کے سنت ہونے کا اعتقاد نہ رکھا جائے، اور نہ کرنے والوں پر طعن وتشنیع نہ ہو، اور ان دعوتوں میں کوئی خلافِ شرع امور  نہ ہوں، بلکہ مہمانوں کے اکرام کے طور پر دعوت کردی جائے تو یہ مباح ہے۔

الموسوعة الفقهية الكويتية (20 / 336):

" قال الحنفية: وليمة العرس سنة، وفيها مثوبة عظيمة. وقال المالكية: وليمة العرس مندوبة، وقيل: واجبة. وقال الشافعية: وليمة العرس وغيره سنة؛ لثبوتها عنه صلى الله عليه وسلم قولاً وفعلاً.
وقال الحنابلة: الأصل في جميع الدعوات المسماة وغير المسماة أنها جائزة، أي مباحة؛ لأن الأصل في الأشياء الإباحة. ويستثنى من ذلك ثلاثة أنواع: وهي: وليمة العرس فإنها سنة مؤكدة، وقيل واجبة، والعقيقة فإنها سنة، والمأتم فإنه مكروه وهو اجتماع النساء في الموت. وفي المغني خلاف ذلك، قال: حكم الدعوة للختان وسائر الدعوات غير الوليمة أنها مستحبة". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200039

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں