بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

منکر حدیث کے ساتھ تعلقات


سوال

میرے ایک بہنوئی ہیں " سید آصف"  جو کچھ عرصے سے ایسے دعوے کر رہے ہیں جو عقیدہ اہلِ سنت والجماعت سے نہیں ہیں۔ پانچ سال پہلے انہوں نے مجھے کچھ پوسٹ بھیجی تھیں جو انکارِ حدیث کا تاثر دے رہی تھیں۔ اس وقت انہیں سمجھانے کی کوشش کی گئی، لیکن وہ اپنی بات پر مصر رہے۔ بہر حال اس وقت ان سے رابطے ختم کردیے۔ اب پانچ سال بعد پھر سے اس شخص نے رابطہ کیا واٹس ایپ پر۔ اور اپنے نظریات کی طرف ببانگِ دھل دعوت دے رہا ہے ۔ اس کے دعوے درج ذیل ہیں:

1) قرآن کریم ایک مکمل ضابطہ حیات کی کتاب ہے۔ احادیث اور فقہ سے احکام کا استدلال کرنا قرآن کا انکار کرنا ہے اور اس سے کفر کرنا ہے۔

2) صرف انبیاء کی ذات ہر گناہ اور جھوٹ سے پاک ہے۔ اور باقی کسی کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس نے زندگی میں کبھی کوئی گناہ نہ کیا ہو، کبھی جھوٹ نہیں کہا ہو۔تو پھر ان راویوں پر کس بات کا بھروسہ کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے صحیح قول نبی پہنچایا ہے۔

3) قرآن کی حفاظت کا وعدہ اللہ نے اپنے ہی ذمے لیا ہے جب کہ باقی کسی بھی آثار ،حدیث، سنت کا ذمہ نہیں لیا۔

4) امام بخاری و مسلم نے کئی لاکھ احادیث جمع کیں اور پھر خود کئی احادیث کو مسترد کردیا اور کچھ احادیث جو ان کے نظریے میں درست تھیں انہیں لے لیا۔

5) سنیوں کے 4 امام اور شیعوں کے 12 امام سب کے سب ایرانی تھے۔ اس سے سازش کی بو نہیں آتی کیا؟

6) اطیعو الرسول سے مراد قرآن ہی ہے ۔ احادیث سے مراد بھی صرف قرآن ہے کیوں کہ قرآن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی منہ مبارک سے پہنچا۔ اس کے علاوہ کو حدیث سمجھنا درست نہیں۔

یہ شخص ایک مبلغ ہے اس نے ایک بہت بڑا گروپ بنایا ہوا ہے واٹس ایپ پر ۔ پہلے اس پر عام وڈیوز اور آڈیوز بھیجتا ہے جو عام طور سب ہی ایک دوسرے کو بھیجتے ہیں صحت۔ انمول باتیں۔ سائنس وغیرہ کے بارے میں پھر جب لوگ بے خبر ہوتے ہیں تو یہ ان کی آہستہ آہستہ ذہن سازی کرتا ہے۔ مجھے بھی اس گروپ میں شامل کیا تھا، لیکن جب میں نے دیکھا کہ اس میں مرد و خواتین کا اختلاط ہے تو میں نے اس گروپ کو چھوڑدیا تھا۔ میرے چھوڑنے کے دو ہفتے بعد اس شخص نے مجھے ان باکس میں تبلیغ کرنا شروع کردی۔

آپ حضرات سے سوال یہ ہے کہ اس شخص کے بارے کیا حکم ہے؟ اس کے ساتھ روابط جاری رکھنے کا کیا حکم ہے؟ اس کی بیوی کو شریعت کیا حکم دیتی ہے؟ جو لوگ اس کی حقیقت جان چکے، لیکن اس کے عقیدے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس کے ساتھ میل ملاپ جاری رکھیں تو ایسے لوگوں کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ اور ایسے لوگوں کے ساتھ روابط رکھنے کا بھی کیا حکم ہے؟ برائے مہربانی راہ نمائی فرمائیں!

جواب

مذکورہ شخص خود بھی گم راہ ہے اور دوسروں کو بھی گم راہ کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے؛ اس لیے  آپ کو اور اس کے دیگر متعلقین کو چاہیے کہ اس کے ساتھ کسی قسم کا کوئی رابطہ اور تعلق نہ رکھیں اور نہ ہی اس کی باتیں سنیں، ورنہ آپ لوگوں کے بھی گم راہ ہونے کا خطرہ ہے، دوسری بات یہ بھی ہے کہ اس طرح قطع تعلقی میں اس کی اس گم راہی سے نفرت کا بھی اظہار ہے جو کہ ایمان کا آخری درجہ ہے، البتہ اگر اس کو دعوت دینے اور سیدھے راستے کی طرف لانے کی نیت سے کوئی اس کے ساتھ تعلق رکھتا ہے ( بشرطیکہ وہ اس پر قادر بھی ہو اور خود اپنے گم راہ ہونے کا خطرہ بھی نہ ہو ) تو اس کی گنجائش بلکہ ضرورت ہے۔ البتہ غیر محرم سے اختلاط وروابط شرعاً ممنوع ہیں؛ لہٰذا آپ تو بہر صورت ان سے رابطہ نہ رکھیں، کوئی صاحبِ علم مرد ہی اصلاح وتبلیغ کی ذمہ داری ادا کرے۔

اگر مذکورہ شخص نفسِ حدیث رسول ﷺ کے حجت ہونے کا ہی منکر ہے، یعنی وہ نبی ﷺ کی کہی ہوئی بات (حدیث) کو ہی حجت نہیں مانتا تو یہ شخص کافر ہے، اور اس کی بیوی کا اس کے ساتھ نکاح باقی نہیں رہے گا، لہٰذا اس کی بیوی کو اس سے فوراً علیحدہ ہو جانا چاہیے۔

البتہ اگر مذکورہ شخص نفسِ حدیث کی حجیت کا منکر نہیں، بلکہ کتابوں میں موجود معتبر ذخیرہ احادیث پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتا ہے اور ان احادیث کو مشکوک قرار دے کر ان کا انکار کرتا ہے تو پھر یہ شخص شریعت کی نظر میں فاسق وگم راہ ہے، لیکن چوں کہ مذکورہ عقیدہ کی بنیاد پر اس شخص کو کافر قرار نہیں دیا جا سکتا ہے؛ اس لیے اس کی بیوی کا نکاح ختم نہیں ہوگا، اس صورت میں اس کی بیوی کو چاہیے کہ اس کو سیدھے راستے پر لانے کی کوشش کرتی رہے، لیکن اگر اسے خود اپنے گم راہ ہونے کا ڈر پیدا ہو جائے تو وہ طلاق لے کر اس سے الگ ہوسکتی ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200273

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں