بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

منرل واٹر کے کاروبار کا حکم


سوال

 آج کل جو منرل واٹر کا کاروبار رائج ہے،کیا یہ کاروبار شرعًا دُرست ہے؟ اس کے علاوہ پانی ایک ایسی چیز ہے جو مفادِ عامہ  کا ایک حق ہے، تو شرعاً اس کاروبار میں کوئی حرج تو نہیں؟

جواب

پانی گو ایک عمومی چیز ہے اور مفادِ عامہ کا حق اس سے متعلق ہے، لیکن  ملکیت میں آنے کے بعد اسے بیچنا جائز ہے، لہٰذا منرل واٹر کا کاروبار شرعاً جائز ہے بشرطیکہ حکومتی اجازت نامہ حاصل ہو اورحفظانِ صحت کے اصولوں کی رعایت رکھی جائے۔

الفتاوى الهندية (3/ 121):
'' لا يجوز بيع الماء في بئره ونهره، هكذا في الحاوي، وحيلته أن يؤاجر الدلو والرشاء، هكذا في محيط السرخسي۔ فإذا أخذه وجعله في جرة أو ما أشبهها من الأوعية فقد أحرزه فصار أحق به، فيجوز بيعه والتصرف فيه كالصيد الذي يأخذه، كذا في الذخيرة، وكذلك ماء المطر يملك بالحيازة،كذا في محيط السرخسي.

وأما بيع ماء جمعه الإنسان في حوضه ذكر شيخ الإسلام المعروف بخواهر زاده في شرح كتاب الشرب: أن الحوض إذا كان مجصصاً أو كان الحوض من نحاس أو صفر جاز البيع على كل حال، وكأنه جعل صاحب الحوض محرز الماء بجعله في حوضه ولكن يشترط أن ينقطع الجري حتى لا يختلط المبيع بغير المبيع''۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200435

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں